بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahkam-ul-Quran - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) انکو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
نبی کو خطاب دراصل امت کو خطاب ہے قول باری ہے (یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن، اے نبی ﷺ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت میں خطاب کی تخصیص حضور ﷺ کے ساتھ کی گئی ہے اس کے کئی وجوہ محتمل ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ مخاطبین کے اس علم پر اکتفا کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ کو مخاطب بنا کر جو حکم سنایا جارہا ہے اس کے مخاطب وہ بھی ہیں کیونکہ انہیں حضور ﷺ کی پیروی کا پابند بنایا گیا ہے۔ اس قاعدے سے صرف وہی احکام مستثنیٰ ہیں جو حضور ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں۔ آیت کی ابتداء حضور ﷺ کے ساتھ خطاب کی تخصیص سے ہوئی پھر خطاب کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا کیونکہ حضور ﷺ کو خطاب کے معنی مسلمانوں کی پوری جماعت کو خطاب کے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عبارت اپنے مفہوم کے لحاظ سے کچھ اس طرح بنتی ہے۔ ” یا ایھا النبی قل لامتک اذا طلقتم النساء (اے نبی ﷺ ! اپنی امت سے کہہ دو کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو الخ) تیسری وجہ یہ ہے کہ عادۃً جب سردار کو خطاب کیا جاتا ہے تو اس میں اس کے تمام پیروکار اور متبعین داخل ہوتے ہیں جس طرح یہ قول باری ہے (الی فرعون وملائہ فرعون اور اس کی جماعت کی طرف) آیا دوران حیض طلاق واقع ہوسکتی ہے ؟ قول باری ہے (فطلقوھن لعدتھن تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دی تھی، جب حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” ان سے کہو کہ رجوع کرکے بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھیں۔ جب وہ حیض سے پاک ہوجائے اور اس کے ایک اور حیض گزر جائے اور طہر کا زمانہ آجائے تو ہم بستری کرنے سے پہلے علیحدگی اختیار کرلیں یا اسے بدستور اپنی بیوی بنائے رکھیں۔ کیونکہ یہی وہ عدت ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ “ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے یہ روایت کی ہے ۔ ابن جریج نے ابوالزبیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے قرات کی تھی فطلقوھن فی قبل عدتھن (انہیں ان کی عدت کی ابتداء میں طلاق دو “ آپ نے فرمایا ” طہر کی حالت میں جس میں ہم بستری نہ ہوئی ہو “۔ ) وکیع نے سفیان سے ، انہوں نے ابوطلحہ کے آزاد کردہ غلام محمد بن عبدالرحمن سے ، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ انہوں نے حیض کے دوران اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا جسے سن کر آپ ﷺ نے فرمایا : ” انہیں کہو کہ رجوع کرلیں اور پھر طلاق دے دیں خواہ بیوی حاملہ ہو یا غیر حاملہ۔ “ بعض طرق میں اس روایت کے یہ الفاظ ہیں : ” اسے حالت طہر طلاق دیں جس میں ہم بستری نہ ہوئی ہو یا حالت حمل میں طلاق دیں جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے قول باری (فطلقوھن لعدتھن) میں اللہ کی مراد کو واضح کردیا ہے کہ طلاق کا ماموربہ وقت یہ ہے کہ اسے حالت طہر میں طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ ہوئی ہو یا حالت حمل میں طلاق دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ حضور ﷺ نے یہ بھی واضح فرمادیا کہ سنت طلاق کی ایک صورت اور بھی ہے وہ یہ کہ دو طلاقوں کے درمیان ایک حیض کا فاصلہ رکھا جائے چناچہ آپ نے فرمایا : بیوی سے رجوع کرلیں پھر اسے حیض سے پاک ہونے دیں پھر وہ ایک حیض گزار کر پاک ہوجائے پھر اگر چاہیں تو اسے طلاق دے دیں۔ “ یہ چیز اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ایک ہی طہر میں دو طلاق دے دینا سنت طریقہ نہیں ہے ہمیں کسی اہل علم کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ اس نے طہر کے اندر ہمبستری کے بعد طلاق کی اباحت کی ہو۔ البتہ وکیع نے حسن بن صالح سے، انہوں نے بیان سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی کی حالت طہر میں طلاق دے دیتا ہے تو اس کی یہ طلاق سنت طلاق ہوگی خواہ اس نے اس کے ساتھ ہم بستری کیوں نہ کرلی ہو۔ شعبی کی یہ بات حضور ﷺ سے ثابت شدہ سنت اور اجماع امت کے خلاف ہے تاہم شعبی سے ایسی روایت بھی ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ عورت حاملہ ہو۔ یہ روایت یحییٰ بن آدم نے حسن بن صالح سے ، انہوں نے بیان سے اور انہوں نے شعبی سے کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حمل کے دوران طلاق دے دے تو اس کی یہ طلاق سنت طلاق ہوگی خواہ اس نے اس کے ساتھ ہمبستری کیوں نہ کرلی ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعبی سے اصل روایت یہی تھی لیکن کسی راوی نے غفلت برتتے ہوئے حاملہ کے لفظ کا تذکرہ نہیں کیا۔ قول باری (فطلقوھن بعدتھن) ایک طلاق کو نیز تین طلاقوں کو شامل ہے جو طہر کے زمانوں میں متفرق صورت میں دی جائیں۔ کیونکہ حرف لام کا ادخال اسی مفہوم کا مقتضی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل، نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک) آیت ہر زوال آفتاب کے وقت نماز کے عمل کی تکرار کے حکم کو شامل ہے۔ اس لئے زیر بحث آیت کی دو باتوں پر دلالت ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ تین طلاقوں کی اباحت ہے جو طہر کے زمانوں میں متفرق صورت میں دی جائیں۔ اس میں ان حضرات کے قول کا ابطال ہے جن کے نزدیک طہر کے زمانوں میں تین طلاق دینا سنت نہیں ہے۔ امام مالک ، اوزاعی، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کا یہی مسلک ہے۔ دوسری بات جس پر آیت کی دلالت ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاقوں کی ممانعت ہے۔ کیونکہ قول باری (لعدتھن) اس کا مقتضی ہے، ایک ہی طہر میں تینوں طلاقوں کا مقتضی نہیں ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (لدلوک الشمس) یہ قول باری ایک وقت کے اندر دو نمازوں کی ادائیگی کا مقتضی نہیں ہے بلکہ یہ اوقات کے اندر نماز کی ادائیگی کی تکرار کا مقتضی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق سنت دینے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو وقت کا پہلو ہے وہ یہ کہ حالت طہر میں طلاق دے جس کے اندر ہم بستری نہ ہوئی ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے جب کہ حمل ظاہر ہوچکا ہو۔ دوسرا پہلو طلاق کی تعداد کا ہے وہ یہ کہ ایک طہر میں ایک سے زائد طلاق نہ دے۔ وقت کی شرط اس شخص کے لئے ہے جو عدت میں طلاق دے رہا ہو کیونکہ جس عورت پر عدت واجب نہیں ہوتی مثلاً ایسی عورت جسے اس کے خاوند نے دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی ہو، اسے حیض کے دوران طلاق دینا مباح ہے۔ کیونکہ قول باری ہے (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ، تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے یا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مذکورہ بیویوں کو طہر اور حیض دونوں حالتوں کے اندر طلاق دینامباح کردیا ہے۔ ہم نے سورة بقرہ میں ان لوگوں کے قول کے بطلان کو واضح کردیا ہے جن کے نزدیک ایک حیض میں تین طلاقوں کو جمع کردینا طلاق سنت کی ایک صورت ہے اور ان لوگوں کے قول کے بطلان کو بھی جو کہتے ہیں کہ طہر کے زمانوں میں تین طلاق متفرق کرکے دینا بھی ممنوع ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ حاملہ عورت کو ہم بستری کے بعد طلاق دے دینا اگر جائز ہے تو غیر حاملہ عورت کو طہر کے اندر ہمبستری کے بعد طلاق دے دینا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کسی مسئلے میں حدیث اور اتفاق سلف کے ہوتے ہوئے قیاس کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی تاہم اگر قیاس کی جہت سے دیکھا جائے تو دونوں صورتوں کے اندر واضح فرق معلوم ہوگا۔ وہ یہ کہ اگر عورت حیض سے پاک ہوجائے اور طہر کی حالت میں مرد اس کے ساتھ ہم بستری کرے تو اسے یہ علم نہیں ہوگا کہ اس ہم بستری کے نتیجے میں عورت کو حمل ٹھہر گیا ہے یا نہیں ۔ حمل ٹھہر جانے کی صورت میں ممکن ہے کہ وہ اسے طلاق نہ دینا چاہتا ہو اور پھر طلاق دینے کی بنا پر اسے نادم ہونا پڑے۔ قول باری ہے (واحصوا العدۃ اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو) یعنی وہ عدت جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ فروء اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں) ۔ نیز (ما للانی یئسن من المحیض اور وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں) تاقول باری (والائی لم یحضن واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو اور حاملہ عورتوں کی عد ت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے) کے ذریعے واجب کردیا ہے۔ کیونکہ درج بالا آیات میں مطلقہ عورتوں کی عدتوں کا ذکر ہے جو ان پر آیات میں مذکورہ احوال کے تحت واجب ہوتی ہیں۔ اس طرح عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کئی مقاصد کے لئے ہوگا۔ ایک مقصد تو یہ ہے کہ اگر شوہر کا ارادہ رجوع اور بیوی کو رکھنے کا یا اسے رخصت کرکے علیحدگی اختیار کرنے کا ارادہ ہو تو اس کی عدت کی مدد سے ایسا کرنا ممکن ہوگا۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ جس حالت میں عورت کو طلاق ملی ہے اسے اسی حالت پر باقی رہنے دینے کے لئے عدت کا پورا پورا خیال رکھا جائے اور کوئی ایسی حالت پیدا ہونے نہ دی جائے جس کی بنا پر اس کی عدت کا اس حالت کی طرف منتقل ہوجانا واجب ہوجائے۔ تیسرا مقصد یہ ہے کہ عورت جب عدت گزر جانے کے بعد بائن ہوجائے تو مرد اس کی علیحدگی کی گواہی پیش کرکے اس کے سوا کسی اور عورت سے نکاح کرسکے جس کے ساتھ اس مطلقہ کی موجودگی میں نکاح جائز نہیں تھا۔ نیز یہ مقصد بھی ہے کہ عدت کے اختتام سے پہلے مطلقہ عورت کو اس کا شوہر اس کے گھر سے نکال نہ سکے۔ احکام القرآن پر کتابیں لکھنے والوں میں سے ایک صاحب کا خیال ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے کہ طلاق سنت کی تعداد ایک ہوتی ہے نیز امام کے نزدیک یہ بھی طلاق سنت کی ایک صورت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دینا چاہے تو ہر طہر میں ایک طلاق دے دے۔ اس طرح امام صاحب اور ان کے رفقاء کے نزدیک پہلی صورت بھی طلاق سنت ہے اور دوسری صورت بھی طلاق سنت ہی ہے۔ اب یہ بات کیسے جائز ہوسکتی ہے کہ ایک چیز اور اس کے برعکس دونوں سنت بن جائیں۔ اگر یہ بات جائز ہوتی تو حرام کا حلال ہوجانا بھی جائز ہوجاتا ۔ اگر امام ابوحنیفہ یہ کہہ دیتے کہ پہلی صورت سنت ہے اور دوسری صورت رخصت تو زیادہ مناسب بات ہوتی۔ “ ابوبکر حبصاص مصنف کے اس پورے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسے شخص کا کلام ہوسکتا ہے جسے عبادات کے اصول اور ان کے ورود کے جواز اور عدم جواز کی صورتوں کی معرفت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کوئی اہل علم بھی درج بالا جیسی صورت کے ساتھ عبادت کے ورود کے جواز کی نفی نہیں کرتا کیونکہ یہ بات جائز ہے کہ طلاق کے سلسلے میں سنت طریقہ یہ ہوجائے کہ شوہر کو دو باتوں کے درمیان اختیار دے دیا جائے۔ ایک یہ کہ وہ بیوی کو طہر کی حالت میں ایک طلاق دے کر بس کرے اور دوسری یہ کہ حالت طہر میں ایک طلاق دینے کے بعد دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے دے۔ اور یہ دونوں صورتیں مندوب ومستحب قرار دی جائیں اور اسی کے ساتھ پہلی صورت دوسری صورت سے بہتر تسلیم کی جائے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (والقوا عد من النساء اللاتی لا یرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن، اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں) پھر ارشاد ہوا (وان یستعففن خیرلھن، تاہم وہ بھی حیاداری برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قسم توڑنے والے کو تین باتوں کا اختیار دیا ہے وہ ان میں سے جو بات بھی کرلے گا اس کا فرض پورا ہوجائے گا۔ ابوبکر حبصاص کی نظروں میں مصنف کا یہ کہنا کہ ” اگر یہ بات جائز ہوتی تو حرام کا حلال ہوجانا بھی جائز ہوجاتا۔ “ سنن اور فروض میں تخیر کی نفی کا موجب ہے۔ نیز ایک چیز کا بیک وقت حلال اور حرام ہونا اپنی جگہ خود ممتنع ہے۔ مصنف کے اس قول کا بودا پن اور اس کی نامعقولیت اس قدر واضح ہے کہ اس کی تردید میں کوئی لمبی چوڑی بات کہنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف حضرت ابن مسعود ؓ اور تابعین کی ایک جماعت سے بعینہ ہمارے قول کی طرح قول مروی ہے۔ تکمیل عدت تک مطلقہ بیوی گھر سے نہ نکلے قول باری ہے (لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں) اس میں شوہر کو مطلقہ بیوی کو گھر سے نکالنے اور مطلقہ بیوی کو خود گھر سے نکلنے کی نہی ہے۔ اس میں مطلقہ کے لئے عدت کے اختتام تک سکونت مہیا کرنے کے وجوب پر دلیل موجود ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں کو اپنے جن گھروں سے نکلنے سے منع فرما دیا ہے یہ وہی گھر ہیں جن میں طلاق سے پہلے وہ سکونت پذیر تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان ہی گھرورں میں سکونت پذیر رہنے دینے کا حکم فرمایا۔ آیت میں گھر کی نسبت مطلقہ عورت کی طرف سکونت کی بنا پر کی گئی ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (وقرن فی بیوتکن ، اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑی رہو) حالانکہ ازواج مطہرات کے یہ حجرے حضور ﷺ کے تھے۔ اسی آیت کی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ شوہر کے لئے اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ سفر اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ اس سے رجوع کرنے کی گواہی قائم نہ کرلے۔ ہمارے اصحاب نے عدت کے اندر مطلقہ کو سفر کرنے سے بھی روکا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ طلاق رجعی کی صورت میں شوہر پر مطلقہ کی سکونت اور نفقہ کے وجوب کے بارے میں اہل علم کے درمیان ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے نیز اس پر اتفاق ہے کہ اسے اس کے گھر سے نکال دینا بھی جائز نہیں ہے۔ قول باری ہے (الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں) حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ عدت کے اختتام سے پہلے اس کا گھر سے نکلنا صریح برائی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے ” الا یہ کہ وہ شوہر کے اہل خاندان سے بدزبانی پر اتر آئے۔ اگر وہ ایسا کرے تو ان کے لئے اسے گھر سے نکال دینا جائز ہوجائے گا۔ ضحاک کے قول کے مطابق شوہر کی نافرمانی صریح برائی ہے ۔ حسن اور زید بن اسلم کا قول ہے کہ وہ زنا کا ارتکاب کرلے اور پھر اس پر حد جاری کرنے کے لئے اسے باہر لے جایا جائے۔ قتادہ کا قول ہے کہ نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تو ایسی صورت میں اسے نکال دینا جائز ہوگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لفظ کے اندر مذکورہ بالا تمام معانی کا احتمال موجود ہے اور یہ کہنا درست ہے کہ تمام معانی مراد ہیں۔ اس صورت میں اس کا گھر سے نکل جانا صریح برائی ہوگیا، اگر وہ زنا کی مرتکب ہوگی تو حد جاری کرنے کے لئے اسے باہر لے جایا جائے گا۔ اگر شوہر کے خاندان والوں کے ساتھ بدزبانی کرے گی تو اسے نکال دیا جائے گا۔ حضور ﷺ نے اس وقت فاطمہ بنت قیس کو شوہر کے گھر سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا تھا جب انہوں نے اپنے خاوند کے رشتہ داروں کے ساتھ بدزبانی کی تھی۔ اگر شوہر کی نافرمانی اور اس سے سرکشی، بدزبانی اور بد خلقی کی صورت میں ہو جس کی وجہ سے اس کا وہاں رہنا مشکل ہوجائے تو آیت میں اس کا مراد ہونا جائز ہوگا لیکن اگر شوہر کی نافرمانی کی کوئی اور صورت ہو تو ایسا عذر تسلیم نہیں کیا جائے گا جس کی بنا پر اسے گھر سے نکال باہر کرنا جائز ہوجائے۔ ہم نے آیت میں مراد جن تاویلات کا ذکر کیا ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ عذر کی بنا پر اس کا اس گھر سے منتقل ہوجانا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اعذار کی بنا پر جن کا ہم نے ذکر کیا ہے مطلقہ کے گھر سے نکل جانے کی اباحت کردی ہے۔ قول باری ہے (ومن یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ، اور جو کوئی اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خودظلم کرے گا) آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو سنت طریقے سے طلاق نہیں دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی لیکن اللہ کے حدود کو تجاوز کرنے کی بنا پر وہ اوپر خودظلم کرنے والا قرار پائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر طلاق عدت کے بعد کیا ہے۔ اس لئے اس نے یہ واضح کردیا کہ جو شخص غیر عدت کے لئے طلاق دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی اس لئے کہ اگر اس کی طلاق واقع نہ ہوتی تو وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ کہلاتا۔ شوہر کا اپنے نفس پر ظلم کرنے کے باوجود اس کی دی ہوئی طلاق کا واقع ہوجانا آیت میں مراد یہ ہے۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے کہ جس کا ذکر مذکورہ بالا آیت کے فوراً بعد ہوا ہے (لا تدری لعلی اللہ یحدث بعد ذلک، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ کوئی صورت پیدا کردے) یعنی اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ندامت کا احساس پیدا کردے لیکن یہ احساس اسے کوئی فائدہ نہ دے سکے کیونکہ وہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہے۔ یہ بات امام شافعی کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے کہ ایک کلمہ کے ذریعے تین طلاق دے دینا بھی سنت طریقہ ہے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاق دینے پر نیز بعد میں طلاق ہونے والی ندامت کا اعتبار نہ کرنے پر اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والا قرار دیا ہے۔ حضور ﷺ نے بھی حضرت ابن عمر ؓ کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ جب انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دی تھی اور انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ حیض کے دوران دی ہوئی پہلی طلاق غلط تھی۔ آپ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تاکہ غلطی کے اسباب ختم ہوجائیں اور پھر وہ سنت طریقے سے اپنی بیوی کو نئے سرے سے طلاق دیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حیض کے دوران دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ ہم نے سورة بقرہ میں کتاب وسنت کی جہت سے اس قول کے بطلان کو واضح کردیا ہے۔ اس کے بطلان پر یونس بن جبیر کی وہ گفتگو بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ہوئی تھی۔ یونس نے ان سے حیض کے دوران طلاق دینے کا مسئلہ پوچھا تھا اور حضور ﷺ کے اس حکم کا بھی ذکر کیا تھا جو آپ نے انہیں حیض کے دوران اپنی بیوی کو طلاق دینے پر رجوع کرلینے کے سلسلے میں دیا تھا۔ جب یونس نے حضرت ابن عمر ؓ سے یہ پوچھا کہ آیا انہوں نے اس حیض کو عدت میں شمار کیا تھا ؟ تو انہوں نے جواب میں کہا تھا۔” منہ بند کرو تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ (یعنی میں) اتنا ہی عاجز اور بیوقوف تھا۔ “ اگر کوئی شخص اس روایت سے استدلال کرے جسے محمد بن بکر نے ہمیں بیان کیا ہے۔ انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن صالح نے، انہیں عبدالرزاق نے ، انہیں ابن جریج نے، انہیں ابوالزبیرنے کہ انہوں عروہ کے آزاد کردہ غلام عبدالرحمن بن ایمن کو حضرت ابن عمر ؓ سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ پوچھتے ہوئے سنا تھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دی تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے فرمایا۔ حضور ﷺ کے زمانے میں میں نے اپنی بیوی کو حیض کے دوران طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے حضور ﷺ سے جب اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا اور اسے کوئی بات قرار نہیں دی اور فرمایا کہ جب یہ حیض سے پاک ہوجائے تو پھر اسے طلاق دے دینا یا اپنے عقدزوجیت میں باقی رہنے دینا۔ آپ نے اس موقع پر آیت (یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن فی قبل عد نہن) کی تلاوت کی۔ مستدل کا خیال یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بتایا ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی بیوی کو ان پر لوٹا دیا تھا اور اسے کوئی بات قرار نہیں دی تھی یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جو کچھ کہا ہے وہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ آپ نے طلاق واقع ہوجانے کا حکم نہیں لگایا بلکہ طلاق واقع ہوجانے پر اس کی دلالت واضح ہے کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کے قول ” آپ نے بیوی کو مجھ پر لوٹا دیا۔ “ سے رجوع مراد ہے اور آپ نے اسے کوئی بات قرار نہیں دی “ سے یہ مراد ہے کہ آپ ﷺ نے بیوی کو ان سے بائن نہیں کیا۔ حضرت ابن عمر ؓ کی اس روایت کو ان سے حضرت انس ؓ نے روایت کی ہے، حضرت انس ؓ سے ابن سیرین، سعید بن جبیر اور زیدبن اسلم نے روایت کی ہے اسی طرح منصور نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے اس کی روایت کی ہے ۔ سب کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور ﷺ نے حضرت ابن عمر ؓ کو حکم دیا تھا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلیں حتیٰ کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔
Top