Ahkam-ul-Quran - At-Talaaq : 4
وَ الّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ١ۙ وَّ الّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَ١ؕ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا
وَ الّٰٓئِیْ يَئِسْنَ : اور وہ عورتیں جو مایوس ہوچکی ہوں مِنَ الْمَحِيْضِ : حیض سے مِنْ نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتوں میں سے اِنِ ارْتَبْتُمْ : اگر شک ہو تم کو فَعِدَّتُهُنَّ : تو ان کی عدت ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ : تین مہینے ہے وَ الّٰٓئِیْ لَمْ : اور وہ عورتیں ، نہیں يَحِضْنَ : جنہیں ابھی حیض آیا ہو۔ جو حائضہ ہوئی ہوں وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ : اور حمل والیاں اَجَلُهُنَّ : ان کی عدت اَنْ : کہ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ : وہ رکھ دیں اپنا حمل وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ : اور جو ڈرے گا اللہ سے يَجْعَلْ لَّهٗ : وہ کردے گا اس کے لیے مِنْ اَمْرِهٖ : اس کے کام میں يُسْرًا : آسانی
اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (انکی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (انکی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کام میں سہولت کر دے گا
آیسہ اور صغیرہ کی عدت کا بیان قول باری ہے (واللائی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھرو ا للائی لم یحضن اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمہیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم ان کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس میں جن عورتوں کا ذکر ہے ان کے لئے شک کے بغیر ایاس ثابت کردیا جائے اور قول باری (ان ارتبتم) سے ایاس کے متعلق شک مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ جن عورتوں کا ایاس ثابت ہوگیا ہے ان کا حکم آیت کی ابتداء میں اللہ نے ثابت کردیا ہے۔ اس سے یہ واجب ہوگیا کہ شک کا تعلق ایاس کے سوا کسی اور بات کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ آیت میں مذکور شک کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ مطرف نے عمرو بن سالم سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ کتاب اللہ میں نابالغ لڑکیوں ، بوڑھی عورتوں نیز حاملہ عورتوں کی عدت کا ذکر نہیں ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (واللائی یئسن من المحیض من نسآء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ اشھر واللائی لم یئسن و اولا ت الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) ۔ اس حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہ تھا کہ لوگوں کو نابالغ لڑکیوں، بوڑھی عورتوں نیز حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق شک تھا۔ آیت میں شک کا ذکر دراصل اس سبب کے ذکر دراصل اس سبب کے ذکر کے درجے پر ہوا ہے جس کی بنا پر حکم کا نزول ہوا۔ اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوگا ” اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر کوئی شک لاحق ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ان کی عدت تین مہینے ہے۔ “ جس عورت کا حیض بند ہوجائے اس کے حکم کے متعلق سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہاء امصار کی آرا میں اختلاف ہے۔ ابن المسیب نے حضرت عمر ؓ سے روایت کی ہے، انہوں نے فرمایا ” جس عورت کو طلاق ہوجائے پھر اسے ایک یا دو حیض آجائیں اور پھر حیض بند ہوجائے تو نو ماہ تک حیض آنے کا انتظار کیا جائے گا۔ اگر اس دوران حمل ظاہر ہوجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ نو ماہ کے بعد تین ماہ اور گزارے گی اور پھر عدت سے فارغ ہوگی۔ “ حضرت ابن عباس ؓ سے اس عورت کے متعلق جس کا حیض ایک سال تک بند رہے منقول ہے کہ ” اسی کو شک کہتے ہیں۔ “ معمر نے قتادہ سے، اور انہوں نے عکرمہ سے اس عورت کے متعلق نقل کیا ہے جسے سال میں ایک مرتبہ حیض آتا ہو کہ ” اسی کو شک کہتے ہیں اس کی عدت تین ماہ ہوگی۔ “ سفیان نے عمرو سے اور انہوں نے طائوس سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے کہ ایسی عورت تین حیض گزارے گی۔ امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے روایت کی ہے کہ ان کے دادا احبان کے عقد میں دو عورتیں تھیں، ایک ہاشمیہ تھی اور دوسری انصاریہ۔ انہوں نے انصاریہ کو اس وقت طلاق دی جب وہ بچے کو دودھ پلارہی تھی۔ ایک سال گزرنے کے بعد حبان کی وفات ہوگئی اور مطلقہ کو حیض نہیں آیا۔ وہ کہنے لگی کہ میں ان کی وارث بنوں گی مجھے حیض نہیں آیا ہے۔ جھگڑا امیر المومنین حضرت عثمان ؓ کے سامنے پیش ہوا۔ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اس فیصلے پر ہاشمیہ نے حضرت عثمان ؓ سے اپنے غصے کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا ” یہ تمہارے چچا زاد بھائی (حضرت علی) کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے ہی ہمیں یہ مشورہ دیا تھا۔ ابن وہب نے روایت کی ہے کہ یونس نے ابن شہاب زہری سے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔ اس روایت میں ابن شہاب نے کہا تھا کہ انصاریہ کو نو ماہ تک حیض نہیں آیا، پھر انہوں نے حبان کی وفات اور وراثت کے جھگڑے کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ حضرت عثمان ؓ نے اس جھگڑے کے بارے میں حضرت علی ؓ اور حضرت زید ؓ سے مشورہ کیا۔ دونوں نے یہی مشورہ دیا کہ مطلقہ وارث ہوگی۔ کیونکہ وہ نہ تو ان عورتوں میں سے ہے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں اور نہ ان کنواری لڑکیوں میں سے جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا۔ اسے تو حبان کے پاس تین حیض گزارنے تک رہنا ہوتا خواہ اس کی مدت کم ہوتی یا زیادہ ۔ ان دونوں حضرات کے اس قول سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ قول باری ، عورت کے بارے میں شک پر محمول نہیں ہے بلکہ عورتوں کی عدت کے حکم کے متعلق شک کرنے والوں کے شک پر محمول ہے۔ نیز یہ کہ ایک عورت اس وقت تک آیسہ نہیں ہوتی جب تک وہ ان عورتوں میں سے نہ ہو جو جوانی سے گزری بیٹھی ہوں اور ان کے حیض آنے کی امید ختم ہوچکی ہو۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ اس بارے میں فقہاء امصار کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ جس عورت کا حیض بند ہوجائے اور اس کی وجہ یہ نہ ہو کہ نئے سرے سے حیض آنے کے متعلق مایوسی ہو۔ اس کے متعلق ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس کی عدت کا حساب حیض کے ذریعے ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچ جائے جس میں اس کے خاندان کی عورتوں کو حیض نہیں آتا۔ اس صورت میں وہ حیض سے مایوس عورت جیسی عدت گزارے گی یعنی نئے سرے سے عدت کے تین ماہ اور گزارے گی۔ سفیان ثوری، لیث بن سعد اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ ایسی عورت پہلے نو ماہ تک انتظار کرے گی اگر اس دوران اسے حیض نہ آئے تو پھر تین ماہ کی عدت گزارے گی۔ اگر تین ماہ مکمل کرلینے سے پہلے حیض آجائے تو عدت کا حساب حیض کے ذریعے کرے گی۔ البتہ اگر اس پر نو ماہ گزر جائیں اور اسے حیض نہ آئے تو اس صورت میں وہ اگلے تین ماہ کی عدت گزارے گی جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے بیان کیا ہے کہ مطلقہ عورت کو اگر حیض آجائے اور پھر اسے شک ہوجائے یعنی اس کا حیض بند ہوجائے تو ایسی صورت میں حیض بند ہونے کے دن سے ، نہ کہ طلاق واقع ہونے کے دن سے، نو ماہ کی عدت گزارے گی۔ امام مالک نے قول باری (ان ارتبتم) کے معنی یہ یہاں کیے ہیں کہ ” اگر تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ اس عورت کے معاملہ میں تمہیں کیا کرنا چاہیے۔ “ اوزاعی کا قول ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی جوان بیوی کو طلاق دے دے پھر اس کا حیض بند ہوجائے اور تین ماہ تک اسے کوئی حیض نہ آئے تو وہ ایک سال کی عدت گزارے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے آیسہ کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے۔ ظاہر لفظ اس امر کا مقتضی ہے کہ یہ عدت ان عورتوں کے لئے ہو جنہیں حیض سے مایوسی ہوچکی ہو اور اس میں شک وشبہ نہ ہو۔ جس طرح قول باری (واللانی لم یحضن) اس لڑکی کے لئے ہے جس کے متعلق یہ ثابت ہو کہ اسے حیض نہیں آیا اور جس طرح قول باری (واولات الاحمال اجلھن) اس عورت کے لئے ہے جس کا حمل ثابت ہوچکا ہو ، اسی طرح قول باری (واللائی یئسن) اس عورت کے لئے ہے جس کا ایاس ثابت اور متعین ہوچکا ہو، اس عورت کے لئے نہیں جس کے ایاس کے بارے میں شک و شبہ ہو۔ قول بایر (ان ارتبتم) کو تین باتوں میں سے ایک پر محمول کیا جاسکتا ہے یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ شک اس بارے میں ہو کہ آیا وہ آیسہ ہے یا آیسہ نہیں ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو۔ یا آیسہ اور صغیرہ (نا بالغ لڑکی) کی عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک مراد ہے۔ آیت کو پہلی صورت پر محمول کرنا اس بنا پر درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس عورت کی عدت مہینوں کے حساب سے مقرر کردی اسے آیسہ ثابت کردیا ہے۔ اب ایسی عورت جس کے ایاس کے متعلق شک ہو وہ آیسہ نہیں ہوسکتی کیونکہ رجاء یعنی امید کے ساتھ ایاس کا اجتماع محال ہے اس لئے کہ یہ دونوں اضداد میں سے ہیں۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ حیض سے مایوس عورت کے بارے میں حیض آنے کی امیدرکھی جائے۔ اس لئے آیت سے ایاس کے بارے میں شک کے معنی لینا غلط ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بڑی عمر کی وہ عورت آیت میں مراد ہے جس کی حیض سے مایوسی یقینی امر ہوتی ہے۔ آیت میں مذکور شک تمام مخاطبین کی طرف راجع ہے، اور مذکورہ بالا عورت کے سلسلے میں شک سے مراد اس کی عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک ہے اس لئے جس عورت کے ایاس کے متعلق شک ہو اس کے سلسلے میں بھی عدت کے بارے میں شک مراد لینا واجب ہے کیونکہ لفظ کا عموم سب کے بارے میں ہے۔ نیز اگر عورت جوان ہو اور اسے سال میں ایک مرتبہ حیض آنے کی عادت ہو تو ایسی عورت کو اپنے ایاس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوتابل کہ اس کا حیض والی عورت ہونا یقینی امر ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس کی عدت کی مدت ایک سال ہو جبکہ یہ معلوم ہو کہ وہ آیسہ نہیں ہے بلکہ حیض والی عورت ہے۔ دو حیضوں کے درمیان مدت کی طوالت اسے حیض والی عورتوں کے دائرے سے خارج نہیں کرتی۔ اس لئے جو شخص ایسی عورت پر مہینوں کے حساب سے عدت واجب کرتا ہے وہ دراصل کتاب اللہ کی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حیض والی عورتوں کی عدت حیض کے حساب سے مقرر کی ہے چناچہ ارشاد ہے (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروم اور طلاق یافتہ عورتیں تین قروء یعنی حیض تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں گی) آیت میں یہ فرق نہیں رکھا گیا ہے کہ کسی عورت کی حیض کی مدت طویل ہوتی ہے اور کسی کی قصیر۔ یہاں یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ شک سے مراد حمل سے مایوسی کے بارے میں شک ہے اس لئے کہ حیض سے مایوسی دراصل حمل سے مایوسی کی صورت ہوتی ہے۔ ہم نے دلائل سے ان لوگوں کے قول کا بطلان بھی ثابت کردیا ہے جن کے نزدیک آیت میں مذکور شک حیض کی طرف راجع ہے۔ اس لئے اب تیسری صورت ہی باقی رہ گئی یعنی قول باری (ان ارتبتم) سے آیسہ اور صغیرہ کی عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک مراد ہے۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے کہ انہیں آیسہ اور صغیرہ کی عدت کے بارے میں شک ہوا تھا اور پھر انہوں نے حضور ﷺ سے اس بارے میں استفسار کیا تھا۔ نیز اگر ایاس کے بارے میں شک مراد ہوتا تو اس میں آیت کا خطاب مردوں کو ہونے کی بجائے عورتوں کی طرف ہونا اولیٰ ہوتا کیونکہ حیض کے بارے میں معلومات کا حصول عورت کی جہت سے ہوتا ہے۔ اسی بنا پر حیض کے بارے میں عورت کے بیان کی تصدیق کی جاتی ہے۔ اس صورت میں آیت میں (ان ارتبتم ) کی بجائے ” ان ارتبتن یا ان ارتبن “ (اگر تم عورتوں کو شک ہو یا ان عورتوں کو شک ہو) کے الفاظ ہوتے۔ لیکن جب شک کے بارے میں خطاب کا خ عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس سے عدت کے بارے میں مخاطبین کا شک مراد ہے۔ قول باری (واللائی لم یحضن) سے مرادیہ ہے کہ جن عورتوں کو ابھی تک حیض نہیں آیا ان کی عدت کی مدت تین ماہ ہے۔ کیونکہ یہ فقرہ ایسا کلام ہے جسے مستقل بالذات قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے اس کے ساتھ پوشیدہ لفظ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور یہ پوشیدہ لفظ وہ ہے جس کا ذکر ظاہر لفظ میں گزر چکا ہے یعنی (فعدتھن ثلثۃ اشھر) دوسرے الفاظ میں ان عورتوں کی عدت کا حساب مہینوں کے ذریعے ہوگا۔ حاملہ عورت کی عدت کا بیان قول باری ہے (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن، اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سلف کے مابین اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ طلاق یافتہ حاملہ عورت کی عدت کی حد یہ ہے کہ اس کا وضع حمل ہوجائے۔ البتہ ایسی حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا گیا ہو اس کی عدت کی مدت کے بارے میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ دونوں مدتوں میں سے جو زیادہ طویل ہوگی وہ اس کی عدت کی مدت ہوگی۔ ایک مدت تو وضع حمل ہے اور دوسری مدت چار مہینے دس دن ہے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابو مسعود ؓ البدری اور حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ہے کہ اس کی مدت کی حد وضع حمل ہے۔ جب وضع حمل ہوجائے گا تو اس کے لئے کسی سے نکاح کرلینا جائز ہوگا۔ فقہاء امصار کا بھی یہی وقل ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ابراہیم نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا ” جو شخص چاہے میں اس کے ساتھ اس امر پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ قول باری (واولات الاحمال اجلھن ان یعضعن حملھن) کا نزول اس آیت کے بعد ہوا ہے جس میں بیوہ ہوجانے والی عورت کی عدت کی مدت بیان ہوئی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود ؓ کا یہ قول دو معنوں کو متضمن ہے۔ ایک تو درج بالا آیت کے نزول کی تاریخ کا اثبات نیز یہ کہ اس کا نزول بیوہ ہوجانے والی عورت کے لئے عدت کے مہینوں کے ذکر کے بعد ہوا ہے۔ دوسرے یہ کہ درج بالا آیت اپنی ذات کے لحاظ سے اس حکم کو بیان کرنے میں خود کفیل ہے جو اس کے عموم کے اندر پایا جاتا ہے ، اور اسے ماقبل کی آیت کے ساتھ جس میں مطلقہ عورت کا ذکر ہے جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بنا پر تمام طلاق یافتہ اور بیوہ ہوجانے والی عورتوں میں جبکہ وہ حاملہ ہوں عدت کے لئے وضع حمل کا اعتبار واجب ہوگا اور وضع حمل کے حکم کو صرف طلاق یافتہ عورتوں تک محدود نہیں رکھا جائے گا کیونکہ اس میں دلالت کے بغیر عموم کی تخصیص لازم آئے گی۔ آیت زیر بحث میں بیوہ ہوجانے والی عورت جبکہ حاملہ ہو داخل اور مراد ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ اگر اس کی بیوگی کی عدت کے مہینے گزر جائیں لیکن وضع حمل نہ ہوا ہو تو سب کے نزدیک اس کی عدت نہیں گزرے گی بلکہ وضع حمل تک یہ عدت میں رہے گی۔ اگر مہینوں کے اعتبار کا اس بنا پر جواز ہوتا کہ اس کا دوسری آیت میں ذکر ہے تو پھر طلاق یافتہ عورت کے سلسلے میں حمل کے ساتھ حیض کا بھی اعتبار کرنا جائز ہوتا کیونکہ قول باری (والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروا) میں اس کا ذکر ہے۔ اب جبکہ حمل کے ساتھ حیض کا اعتبار نہیں ہوتا تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حمل کے ساتھ مہینوں کا اعتبار بھی نہیں ہوگا۔ منصور نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے ابوالسائل بن بعکک سے روایت کی ہے کہ سبیعہ ؓ بنت الحارث نے اپنے شوہر کی وفات کے تیئس دن بعد بچے کو جنم دیا اور نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہوا تو آپ نے فرمایا (ان تعفل قد خلا اجلھا ، اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو کرسکتی ہے کیونکہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی ہے) یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ اس واقعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کریب کو حضرت ام سلمہ ؓ کے پاس بھیج کر سبیعہ ؓ کے بارے میں دریافت کروایا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ شوہر کی وفات کے چند دنوں بعد سبیعہ ؓ کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا تھا اور حضور ﷺ نے انہیں نکاح کرلینے کی اجازت دے دی تھی۔ محمد بن اسحاق نے محمد بن ابراہیم التیمی، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے سبیعہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ان کے ہاں اپنے شوہر کی وفات کے دو ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوگئی تھی اور حضور ﷺ نے انہیں نکاح کرلینے کی اجازت دے دی تھی۔ ہمارے اصحاب نے نابالغ لڑکے کی بیوی کی عدت وضع حمل ہی رکھی ہے جب اسے حمل ہو اور اس کا خاوند فوت ہوجائے کیونکہ قول باری ہے (واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن) آیت میں بالغ اور نابالغ کی بیویوں کے درمیان نیز نسب کے ساتھ ملحق ہونے والے اور محلق نہ ہونے والے نوزائیدہ بچوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔
Top