Ahsan-ut-Tafaseer - Yunus : 101
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ
قُلِ : آپ کہ دیں انْظُرُوْا : دیکھو مَاذَا : کیا ہے فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : زمین وَمَا تُغْنِي : اور نہیں فائدہ دیتیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں وَالنُّذُرُ : اور ڈرانے والے عَنْ : سے قَوْمٍ : لوگ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : وہ نہیں مانتے
(ان کفار سے) کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے۔ مگر جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے نشانیاں اور ڈراوے کچھ کام نہیں آتے۔
101۔ 103۔ اوپر منکرین قیامت کی کم عقلی کا ذکر تھا ان آیتوں میں ان کو عقل سے کام لینے پر آمادہ کیا اور فرمایا کے اے رسول اللہ کے تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ زمین و آسمان میں کیا کچھ نہیں ہے اگر تم لوگ غور اور فکر کرو تو بات بات سے سمجھ لو کہ خدا کی خدائی میں تمہارے بتوں کو کچھ دخل نہیں ہے۔ چاند سورج دن کا ہونا رات کا ہونا اندھیری راتوں میں ستاروں کا نکلنا راتوں کو سفر کرنے والوں کو کیسا مفید ہے کہ وہ ستاروں کو دیکھ کر سمت دریافت کرلیا کرتے ہیں پھر بارش کا ہونا کھیتوں کا سرسبز کرنا کیسا فائدہ مند ہے غرض کہ ہوشیار آدمی درختوں کے پتہ تک سے خدا کی وحدانیت کا پتہ لگا لیتا ہے پھر فرمایا کہ یہ قدرت کی سب نشانیاں اسی کو بکار آمد ہیں جو ایمان بھی لاوے اور جو ایمان لانے والے نہیں ہیں یہ نشانیاں انہیں کیا فائدہ پہنچائیں گی کیوں کہ ان لوگوں کو بھی اسی روز بد کا انتظار ہے جیسے اگلے رسولوں کی قوم کو تھا کہ اپنے رسول کو جھٹلاتے رہے اور آخر ایک روز ان پر عذاب آیا اور وہ اس سے بچ نہ سکے اگر یہ بھی اسی کے منتظر ہیں تو کہہ دو کہ کان اور آنکھیں اسی کی راہ اور آواز پر رکھو ہم بھی تمہارے ساتھ بیٹھے انتظار کر رہے ہیں اور یہ یاد رکھو کہ خدا کا عذاب جب آتا ہے تو وہ اپنے رسول اور مومنوں کو بچا لیتا ہے اور رسول کے جھٹلانے والوں کو ہلاک کردیتا ہے خدا نے اپنے ذمہ یہ بات ضروری ٹھہرائی ہے کہ وہ مومنوں کو نجات دے گا اور پناہ میں رکھے گا اور نافرمان لوگوں کو ایک دن عذاب میں گرفتار کرے گا۔ صحیح بخاری وغیرہ کے حوالہ سے انس بن مالک ؓ کی یہ روایت سورة انفال میں گزر چکی ہے کہ ابو جہل وغیرہ نے اپنی سرداری کے غرور میں یہ دعا مانگی تھی۔ کہ یا اللہ اگر یہ قرآن اور دین اسلام سچ ہو اور ہم اس کو نہ مانتے ہوں تو ہم پر پتھروں کا مینہ برسے یا اور کوئی عذاب ہم پر آجاوے۔ 1 ؎ اسی طرح صحیح بخاری میں انس بن مالک ؓ کی حدیث ہے کہ بدر کی لڑائی میں جب ابو جہل سخت زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا تھا تو عبد اللہ بن مسعود ؓ نے غصہ سے اس کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ 2 ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عذاب کے آنے سے پہلے جب مشرکین مکہ کو عذاب سے ڈرایا جاتا تھا تو سرکشی کر کے عذاب کے آنے کی خود دعا مانگتے تھے اور جب ان مکی آیتوں کے وعدہ کے موافق ہجرت کے بعد عذاب آگیا تو ان کے بڑے بڑے سرداروں کی ساری عزت اور سرکشی خاک میں مل گئی ابو جہل جیسے سرکش سردار کی ڈاڑھی پکڑی جاوے اور کوئی حمایت کو نہ کھڑا ہو اس سے زیادہ عزت اور سرکشی اور کیا خاک میں مل سکتی ہے۔ ان حدیثوں سے یہ تفسیر بھی ہوسکتی ہے کہ جس طرح آیتوں میں ذکر تھا آخر وہی ہوا کہ مکہ کے سرکش ازلی گمراہ لوگ اپنی سرکشی کے سبب سے عقل کو کچھ کام میں نہ لاسکے نہ قدرت الٰہی کی کسی نشانی سے کچھ فائدہ اٹھا سکے اور آیتوں کے موافق ان کا جو کچھ انجام ہوا وہ انہوں نے اور سب نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ 1 ؎ تفسیر ہذا جلد دوم ص 372۔ 2 ؎ صحیح بخاری ص 565 ج، باب قتل ابی جہل
Top