Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم ان کے حالات تم کو صحیح صحیح بیان کرتے ہیں وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔
13۔ 16:۔ اوپر مختصر طور پر قصہ کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اس کی تفصیل بیان فرمائی۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے یہود کے سکھانے سے قریش نے تم سے ان چند جوان شخصوں کا قصہ جو پوچھا ہے جو جیتے جی غائب ہوگئے وہ صحیح قصہ یوں ہے کہ ان چند جوانوں کی ساری قوم تو بت پرست تھی مگر یہ چند جوان اللہ کی وحدانیت اور عیسائی دین پر قائم تھے پھر فرمایا جب کہ بت پرست بادشاہ دقیانوس نے بت پرستی اختیار کرنے کے لیے ان جوانوں کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ثابت قدمی بڑھا دی اور ان کے دلوں کو خوب مضبوط کردیا جس سے انہوں نے دقیانوس کو یہی جواب دیا کہ ہم سوا اللہ تعالیٰ کے بتوں کے معبود ہونے کا خلاف عقل اقرار ہرگز زبان پر نہیں لاسکتے کیونکہ یہ بات تو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا تو اس کے شکریہ میں انسان پر اکیلے اللہ کی تعظیم واجب ہے ہماری قوم کے لوگ اللہ کی تعظیم میں اوروں کو جو شریک کرتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی ایسی سند نہیں جو ہر ایک کی سمجھ میں آئے پھر بےسند بات کو دین ٹھہرانا اللہ پر یہ جھوٹ باندھنا ہے کہ یہ بےسند دین اللہ تعالیٰ کا ٹھہرایا ہوا ہے دنیا کے حاکموں پر کوئی جھوٹ باندھے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں فرق ڈالے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ گار نہیں 1 ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ بےسند شرک میں پھنسنا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں۔ مجاہد کے قول کے موافق اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ ان جوانوں کی یہاں تک کی باتیں سن کر دقیانوس نے ان جوانوں کی یہاں تک کی باتیں سن کر دقیانوس نے ان جوانوں سے کہا کہ تمہاری جوانی پر مجھ کو ترس آتا ہے اس واسطے میں تمہارے قتل کرانے میں جلدی نہیں کرتا لیکن تم کو مہلت دیتا ہوں اگر اب مہلت کے بعد تم نے قوم کا مذہب اختیار نہیں کیا تو تم ضرور قتل کردیئے جاؤ گے یہ کہہ کر دقیانوس نے ان جوانوں کو اپنے دربار سے نکلوا دیا اس مہلت کے زمانہ میں ان جوانوں نے اپنے دین پر قائم رہنے اور غار میں چھپ جانے کا مشورہ کیا اور اس ارادہ کے پورا ہوجانے میں اللہ کی رحمت پر بھروسہ کیا اسی کا ذکر آخری آیت میں ہے غار میں چھپ جانے کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے وہ یہی لفظ تھے جن کا ذکر انہوں نے اس مشورہ میں کیا تھا۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو بستی کے رہنے میں دین کا خلل دیکھ کر پہاڑ پر یا جنگل میں جار ہیں 2 ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دین کے خلل کے وقت ایماندار آدمی کو یہی کرنا چاہیے اس قصہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ مہلت کے بعد جب یہ جوان دقیانوس کے دربار میں حاضر نہیں ہوئے تو دقیانوس ان کے رشتہ دار لوگوں پر بہت خفا ہوا اور ان جوانوں کے حاضر کرنے کا حکم دیا جوانوں کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ گھروں سے تو وہ جوان چلے گئے مگر سنتے ہیں کہ بستی کے پاس جو پہاڑ ہے اس کے غار میں چھپ گئے ہیں یہ سن کر دقیانوس نے غار کے منہ پر ایک دیوار چنوا دی تاکہ وہ جوان بھوکے پیاسے اس غار کے اندر مرجائیں مگر تقدیر الٰہی کے آگے کسی کی کوئی تدبیر نہیں چلتی اللہ تعالیٰ نے اس دیوار کو ان جوانوں کی حفاظت کا ایک ذریعہ ٹھہرا دیا تاکہ باہر سے کوئی اس غار میں جاکر ان جوانوں کی نیند میں خلل نہ ڈالے معتبر سند سے ترمذی ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ابوسعید خدری ؓ سے اور صحیح سند سے طارق بن شہاب سے جو روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص ظالم بادشاہ کے روبرو حق بات منہ سے نکالنے میں کچھ خوف نہ کرے گا اس کو قیامت کے دن بڑا اجر ملے گا 3 ؎۔ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ان جوانوں نے دقیانوس کے روبرو حق بات جو منہ سے نکالی وہ بڑے اجر کا کام ہے۔ 1 ؎ تفسیر ہذاص 249 ج 3۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 462 کتاب الفتن۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 322 کتاب الامارۃ والقضائ۔
Top