Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا۔
23۔ 26:۔ شروع سورة میں گزر چکا ہے کہ یہود کے سکھانے سے قیس نے تین باتیں اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھیں تو آپ نے وحی کے بھروسہ پر یہ وعدہ کیا کہ کل تک میں ان باتوں کا جواب دے دوں گا مگر اس وعدہ کے وقت انشاء اللہ کا کہنا آپ ﷺ کو یاد نہ رہا اس لیے پندرہ روز تک وحی نہیں آئی۔ مجاہد کے قول کے موافق اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان آیتوں کے ذریعہ حکم دیا کہ آئندہ ہر ایک وعدہ کے ساتھ لفظ انشاء اللہ کہنا چاہیے واذکر ربک اذا نسیت سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے یہ بات نکالی ہے کہ اگر قسم کھا کر کوئی شخص ایک بات کہے اور انشاء اللہ بھول جائے اور پھر جب وہ بات یاد آئے اور انشاء اللہ کہہ لیوے تو ایسی قسم کا کفارہ نہیں ہے 1 ؎۔ لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قسم کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیوے تو قسم کے ٹوٹ جانے پر کفارہ نہیں ہے ورنہ کفارہ ہے۔ مسند امام احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمر ؓ سے صحیح روایت ہے 2 ؎۔ جس سے جمہور کے مذہب کی تائید ہوتی ہے کیونکہ جو جمہور کے قول کا مطلب ہے وہی اس صحیح روایت کا مطلب ہے علاوہ اس کے صحیح بخاری ومسلم میں عبدالرحمن ؓ بن سمرہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جس بات پر قسم کھائی جائے اگر اس سے کوئی اچھی بات نظر آوے تو آدمی کو چاہئے کہ قسم کا کفارہ دے کر اس اچھی بات کو کرلیوے 3 ؎۔ اس حدیث سے بھی جمہور کے مذہب کی تائید ہوئی ہے کیونکہ قسم کے بعد بھی اگر انشاء اللہ کہنا جائز ہوتا تو آپ کفارہ کا ذکر نہ فرماتے بلکہ یہ فرماتے کہ جس بات پر قسم کھائی جائے اگر اس سے اچھی کوئی بات نظر آئے تو آدمی انشاء اللہ کہہ کر قسم کے کفارہ سے بچ جائے اور اچھی بات کو کر لیوے۔ اس کے بعد فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں سے یہ بھی کہہ دو کہ میری نبوت کا ثبوت کچھ اس پر منحصر نہیں ہے کہ مثلا تم لوگوں نے یہود کے سکھانے سے اصحاب کہف کا قصہ پوچھا اور میں نے باوجود ان پڑھ ہونے کے صحیح صحیح وہ قصہ بیان کردیا بلکہ مجھ کو تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس سے بڑھ کر مجھ کو نبوت کا ثبوت عنایت کرے گا۔ صحیح بخاری میں خباب بن الارت سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز خباب نے اللہ کے رسول ﷺ سے شکایت کی کہ اب تو مشرکین مکہ بہت تکلیفیں دیتے ہیں آپ نے فرمایا ذرا صبر کرو اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کا وعدہ ایسا پورا کرے گا کہ کسی دشمن کا خوف باقی نہ رہے گا 4 ؎۔ اصحاب کہف کے قصہ سے بڑھ کر نبوت کا ثبوت عنایت کرنے کی امید جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان آیتوں میں دلائی تھی اس قسم کی امید کی آیتوں پر بھروسہ کر کے اللہ کے رسول ﷺ ہجرت سے پہلے اس طرح کی تسلی صحابہ کو فرمایا کرتے تھے جس کا ذکر خباب ؓ بن الارت کی روایت میں گزرا آخر اللہ کا وعدہ اور اللہ کے رسول کا اس وعدہ پر بھروسا کرنا یہ باتیں کہیں خالی جانے والی تھیں اللہ اکبر اسلام کے اس غلبہ کا اور اللہ کے رسول ﷺ کی امید کے پورے ہونے کا کچھ ٹھکانہ ہے کہ جن بتوں کی حمایت میں مشرکین مکہ مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے تھے فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے ان بتوں کو اپنے ہاتھ سے لکڑی مار مار کر زمین پر گرا دیا اور کسی مشرک کو اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ ان بتوں کی کچھ حمایت کرتا۔ یہ بتوں کے زمین پر گرا دینے کا قصہ صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود ؓ کی اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی روایتوں کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے 5 ؎۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اصحاب کہف کے قصہ سے بڑھ کر نبوت کا ثبوت عنایت کرنے کی امید جو اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں اپنے رسول کو دلائی تھی غلبہ اسلام کے اس طرح کے قصے اس امید کے پورا ہونے کی تفسیر ہیں۔ آگے فرمایا اصحاب کہف غار میں سو کر پھر جو جاگے یہ مدت تو شمسی سال کے حساب سے تین سو اور قمری کے حساب سے تین سو نو برس کی ہے اور ان کے دوبارہ سو جانے اور اس قصہ کے قرآن میں نازل ہونے تک کی مدت اللہ خوب جانتا ہے کیونکہ آسمان و زمین کے دیکھنے اور سننے کی سب غیب کی باتیں اسی کو اچھی طرح معلوم ہیں سوا اس کے اور کسی کا اس میں کچھ دخل نہیں ولا یشرک فی حکمہ احدا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلا جس طرح دقیانوس نے اصحاب کہف کو بت پرست بنانا چاہا اور اللہ کا حکم ان کے حق میں یہ تھا جس کا ذکر اس قصہ میں ہے کہ وہ ایک مدت تک سوئے اور پھر جاگے اور منکرین حشر کو ان کا حال دیکھ کر عبرت ہوئی غرض جو اللہ کا حکم تھا وہ ہو کر رہا یا مثلا موسیٰ (علیہ السلام) کے مار ڈالنے کے قصد سے فرعون نے بنی اسرائیل کے ہزارہا لڑکے قتل کرائے مگر جو اللہ کا حکم تھا وہ آخر ہو کر رہا غرض بادشاہ ہو یا وزیر اللہ کے حکم میں کوئی شریک نہیں اس لیے اس کے حکم کو اس طرح کوئی ٹال نہیں سکتا جس طرح ایک شریک دوسرے شریک کے حکم کو کبھی ٹال دیتا ہے مسند امام احمد اور ترمذی کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تمام دنیا کے لوگ اکھٹے ہو کر کسی شخص کو نفع یا نقصان پہنچانا چاہیں تو بغیر اللہ کے حکم کے کچھ نہیں ہوسکتا 6 ؎۔ اس حدیث سے ولا یشرک فی حکمہ احدا کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ اللہ کے حکم میں کوئی شریک نہیں اس لیے اس کا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا۔ 1 ؎ تفسیر بان کثیرص 796 ج 3۔ 2 ؎ ابن ماجہ ص 153 باب الاستثناء فی الیمین 3 ؎ صحیح بخاری ص 980 ج 2 کتاب الایمان والنذور 4 ؎ تفسیر ہذاص 276 ج 3 5 ؎ صحیح بخاری ص 614 ج 2 باب این رکز النبی ﷺ الرأیتہ یوم الفتح۔ 6 ؎ مشکوٰۃ ص 453 باب التو کل والصبر
Top