Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو اسکی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے
27۔ 28:۔ صحیح مسلم میں سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے مالدار مکہ مشرکوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے یہ خواہش کی تھی کہ ہمارے آپ کے پاس آنے کے وقت غریب مسلمان آپ کی مجلس میں نہ بیٹھیں گے تو ہم آپ کی مجلس میں آن کر قرآن کی آیتیں سنا کریں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں 1 ؎۔ اور فرمایا اللہ کا حکم نہیں بدل سکتا اس کا حکم یہی ہے کہ غریب امیر سب کو یکساں ایک ہی مجلس میں قرآن کی آیتیں نصیحت کے طور پر سنائی جائیں اور اے رسول اللہ کے تم کو اللہ کی پناہ نہیں ہے اس واسطے اللہ کی مرضی کے موافق تم اپنا کام کیے جاؤ پھر فرمایا غریبوں کی مجلس میں اگر یہ مالدار مشرک نہ آئیں تو اس کی کچھ پروا نہ کرو کیونکہ ان کے آنے سے فقط دنیا کی زیب وزینت ہے جو اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کو تو یہ پسند ہے کہ خالص اللہ کے واسطے جو غریب مسلمان قرآن کی آیتوں کی نصیحت سننے کو تمہارے پاس آتے ہیں اور پھر اس نصیحت کے موافق خالص عقبیٰ کی بہبودی کی نیت سے صبح شام اللہ کی عبادت میں لگے رہتے ہیں ایسے لوگوں سے تم کام رکھو اور جن لوگوں کے دل اللہ کی یاد سے غافل اور شرک میں گرفتار ہیں ان کی کوئی بات نہ مانو کس لیے کہ ایسے لوگ اپنی مالداری کے غرور میں انسانیت کی حد سے بڑھ گئے ہیں کہ غریب مسلمانوں کو انسان نہیں گنتے اس لیے ان کے ساتھ ایک مجلس میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں ایسے لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا جی چاہے اس کو مانے جس کا جی نہ چاہے وہ نہ مانے اب آگے کی آیتوں میں قرآن کی نصیحت کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا نتیجہ بیان فرمایا۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیرص 80 ج 3
Top