Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 31
اُولٰٓئِكَ لَهُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ یَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِیْنَ فِیْهَا عَلَى الْاَرَآئِكِ١ؕ نِعْمَ الثَّوَابُ١ؕ وَ حَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمْ : ان کے لیے جَنّٰتُ : باغات عَدْنٍ : ہمیشگی تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهِمُ : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں يُحَلَّوْنَ : پہنائے جائیں گے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ : سے ذَهَبٍ : سونا وَّيَلْبَسُوْنَ : اور وہ پہنیں گے ثِيَابًا : کپڑے خُضْرًا : سبز رنگ مِّنْ : سے۔ کے سُنْدُسٍ : باریک ریشم وَّاِسْتَبْرَقٍ : اور دبیز ریشم مُّتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے فِيْهَا : اس میں عَلَي الْاَرَآئِكِ : تختوں (مسہریوں) پر نِعْمَ : اچھا الثَّوَابُ : بدلہ وَحَسُنَتْ : اور خوب ہے مُرْتَفَقًا : آرام گاہ
ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی انکو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے (اور) تختوں پر تکیے لگا کر بیٹھا کریں گے (کیا) خوب بدلہ اور (کیا) خوب آرام گاہ ہے
31:۔ اوپر کی آیت میں اہل دوزخ کا ذکر تھا اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس دوسری آیت میں اہل جنت کا ذکر فرمایا ہے تمام قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے یہی طریقہ برتا ہے کہ جہاں دوزخ اور اہل دوزخ کا ذکر فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں جنت اور اہل جنت کے عیش و آرام کا ذکر ضرور فرمایا ہے تاکہ کچھ لوگ دوزخ کے خوف سے اور کچھ لوگ جنت کے شوق سے ہدایت پائیں غرض ہدایت کا کوئی خفیہ یا شوقیہ طریقہ اس معبود مطلق نے اٹھا نہیں رکھا ہے اس پر بھی جو کوئی دنیا سے گمراہ اٹھے سوا اس کے کم نصیبی کے اس کا سبب اور کیا کہا جاسکتا ہے غریب آدمیوں کو بعضے بیش قیمت کھانے کپڑے میسر تو نہیں مگر اوروں کے کھاتے پہنتے انہوں نے آنکھوں سے دیکھا ہے اس واسطے ان کھانے اور کپڑوں کا حال ان غریب آدمیوں سے کوئی پوچھے تو جو کچھ انہوں نے آنکھوں سے دیکھا ہے اس کو وہ بیان کرسکتے ہیں بعضے غریب آدمی ایسے ہیں کہ ان کو اچھا کھانا اچھا کپڑا آنکھوں سے دیکھنا تو نصیب نہیں ہوا لیکن انہوں نے کانوں سے سن لیا ہے کہ مثلا پلاؤ ایسا ہوتا ہے اور کمخواب کا تھان ایسا ہوتا ہے وہ بھی پلاؤ اور کمخواب کی سنی سنائی حالت بیان کرسکتے ہیں بعضے غریب لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے جو چیزیں کبھی عمر بھر نہ آنکھ سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں لیکن وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے دلی منصوبے کرلیتے ہیں کہ خدا دے تو ایسے کھانے پکائیں ایسے کپڑے بنائیں ایسے باغ لگا دیں۔ رہے بادشاہ وزیر امیر یہ تو اپنے اپنے مقدور کے موافق ہر روز دنیا کی سب عیش و آرام کی چیزیں آنکھوں سے دیکھتے برتتے ہیں لیکن جنت کے عیش و آرام کے سامان ایسے ہوں گے کہ دنیا میں آج تک بادشاہ سے فقیر تک نہ وہ سامان کسی کو آنکھ سے دیکھنے نصیب ہوئے نہ کسی نے ان کو کانوں سے سنا نہ کسی کے جی میں ان کا منصوبہ جم سکتا ہے کہ وہ کیا کیا اور کس کس طرح کے سامان ہوں گے چناچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے جو حدیث قدسی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنتی لوگوں کے لیے جنت میں وہ وہ عیش کے سامان مہیا کیے گئے ہیں کہ وہ نہ کسی آنکھ نے دیکھے نہ کان نے سنے نہ کسی جی میں ان کا تصور گزر سکتا ہے 1 ؎۔ حاصل کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل اور اپنے حبیب ﷺ کے طفیل سے جن نیک بندوں کو بہشت نصیب کرے گا وہ بہشت میں داخل ہونے کے بعد جانیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا کیا سامان ان کے لیے مہیا کیا ہے قرآن شریف اور حدیث میں نمونہ کے طور پر بہشت کی نعمتوں کا کسی قدر جو ذکر آیا ہے اور اس ذکر کو نیک لوگوں نے کانوں سے سنا ہے جنت کی نعمتیں اس صحیح حدیث کی شہادت سے ہزاروں لاکھوں کروڑوں ابھی ایسی باقی اور ہر مسلمان کو ایسے عملوں کی توفیق دیوے جن سے ان کو وہ نعمتیں برتنی نصیب ہوں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنت کی وہ چیزیں دنیا کی چیزوں کے ہم نام سمجھانے کے لیے قرآن شریف یا حدیث میں بتلائی گئی ہیں اور ان کو دنیا کی چیزوں سے کچھ مناسبت نہیں ہے مثلا اس آیت میں ذکر ہے کہ جنتیوں کو سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے ترمذی میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ کڑا اگر دنیا میں ہو تو اس کی روشنی کی جھلک سے سورج کی روشنی مدھم ہوجائے 2 ؎۔ اب خیال کرلینا چاہئے کہ کیا کسی ہفت اقلیم کے بادشاہ کے پاس ایسا کوئی زیور ہے جس کی جھلک آفتاب کو ماند کر دیوے اسی طرح جنت کی ان اور چیزوں کو سمجھنا چاہیے جن کا ذکر قرآن شریف یا حدیث میں دنیا کی چیزوں کے نام سے آیا ہے اگرچہ سعد بن ابی وقاص کی حدیث کی سند میں عبداللہ بن لہیع ہے اور ابن لہیعہ کی کتابیں جل جانے کے بعد ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ترمذی میں یہی حدیث مرسل طور پر عمر بن سعد کی روایت سے ہے جس کی سند میں ابن لہیعہ نہیں ہے اس لیے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت ہوجاتی ہے۔ عمر بن سعد تابعی نے اس حدیث کو آنحضرت ﷺ سے جو روایت کیا ہے اس طرح کی روایت کو مرسل کہتے ہیں کسی دوسری روایت سے مرسل روایت کو جو تقویت ہوجائے تو پھر مرسل روایت معتبر ٹھہر جاتی ہے۔ (1 ؎ تفسیر ہذاص 12 ج 3 ) (2 ؎ مشکوٰۃ ص 497 باب ضقہ الجنۃ واہلہا۔ )
Top