Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
(اے پیغمبر ﷺ اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے۔
6۔ 7:۔ تفسیر ابن جریر اور سیرۃ محمد ابن اسحاق میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس سورة کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے چند آدمیوں کو یہود کے پاس اس غرض سے بھیجا تھا کہ یہود کچھ مشکل باتیں قریش کو ایسی بتلا دیں جن کو قریش آنحضرت سے امتحان کے طور پر پوچھیں یہود نے تین باتیں بتلا کر یہ کہا کہ اگر ان باتوں کا جواب محمد ﷺ دے دیں تو جان لینا کہ وہ بلاشک سچے نبی ہیں ایک تو روح کا سوال تھا کہ روح کیا چیز ہے اور دوسرا یہ سوال تھا کہ وہ کون سے چند شخص ہیں جو دنیا میں جیتے جی غائب ہوگئے ہیں تیسرا یہ سوال تھا کہ وہ کون شخص ہے جس نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے جب یہود کے سکھلانے سے قریش نے آنحضرت ﷺ سے یہ باتیں پوچھیں تو آپ نے وحی کے بھروسہ پر یہ وعدہ کیا کہ کل تک ان باتوں کا جواب دے دوں گا انشاء اللہ کہنا آپ کو اس وعدہ کے وقت یاد نہ رہا اللہ تعالیٰ کو آپ ﷺ کا بغیر انشاء اللہ کہنے کا وعدہ پسند نہیں آیا اس لیے پندرہ روز تک وحی نازل نہیں ہوئی وحی کے نازل نہ ہونے سے آپ ﷺ کو بہت رنج ہوا آخر سولہ دن سورة بنی اسرائیل میں کی وہ آیت جس میں روح کا حال ہے اور یہ سورة جس میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا حال ہے یہ دونوں باتیں نازل ہوئیں 1 ؎۔ ان باتوں کو سن کر بھی جب قریش اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو اللہ کے رسول ﷺ کو بڑا رنج ہوا جس کا ذکر اس آیت میں ہے اس رنج کے دور کرنے کے لیے آخری آیت میں فرمایا کہ دنیا کے عیش و آرام کو اللہ تعالیٰ نے اسی امتحان کے لیے پیدا کیا ہے کہ بہت لوگ دنیا کی راحت کو اپنے پیدا ہونے کا مدار قرار دے کر آخرت سے مرتے دم تک بیخبر رہیں گے اور کچھ لوگ دنیا کے عیش و آرام کو ناپائیدار سمجھ کر عقبیٰ کی بہبودی کے کاموں میں لگے رہیں گے پھر اے رسول اللہ کے تمہارے رنج کے کرنے سے اللہ کے انتظام کے برخلاف تمام اہل مکہ کو کیونکر ہدایت ہوسکتی ہے صحیح بخاری ومسلم میں عمر وبن عوف ؓ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت کی تنگدستی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس سے ڈرتا ہوں کہ میرے بعد ان کو دنیا کی راحت ملے اور وہ دنیا کی راحت میں پھنس کر پچھلی امتوں کی طرح ہلاک نہ ہو 2 ؎۔ آخری آیت میں دنیا کی راحت کو جانچ کی چیز جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ کی جو حدیث ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی ایک دفعہ انشاء اللہ نہ کہنے سے رنج پہنچا تھا جنانچہ ایک روز کسی ذکر میں حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ اپنی نوے عورتوں سے مباشرت کروں گا تو نوے لڑکے خدا کی راہ میں لڑنے والے پیدا ہوں گے حضرت سیمان ( علیہ السلام) انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس لیے ایک ہی عورت کو حمل رہا وہ بھی کچا ہی ساقط ہوگیا آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر سلیمان ( علیہ السلام) انشاء اللہ کہتے تو ضرور نوے لڑکے پیدا ہوتے 3 ؎۔ غرض آئندہ کی بات پر آدمی کو انشاء اللہ تعالیٰ کہنا ضرور ہے تاکہ اللہ کی مدد سے وہ بات پوری ہوجائے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 71 ج 3۔ 2 ؎ تفسیر ہذاص 368 ج 2۔ 3 ؎ تفسیر ابن کثیرص 78 ج 3۔
Top