Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 67
قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا تو مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
(خضر نے کہا) کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے
67۔ 70:۔ اوپر کی آیتوں کی تفسیر میں صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث جو گزری اس حدیث میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم تم کو دیا ہے میں بھی اس میں سے کچھ سیکھوں اس وقت اس کی مصلحت تم کو معلوم نہیں ہے اس واسطے تم میرے ساتھ رہ کر جو باتیں میں کروں گا۔ ان پر صبر نہ کرسکو گے کیونکہ ان باتوں کی پوری مصلحت تم کو معلوم نہیں ہے اس واسطے تم میرے ساتھ رہ کر جو باتیں میں کروں گا ان پر صبر نہ کرسکو گے کیونکہ ان خضر (علیہ السلام) کو کشتی کے توڑ ڈالنے اور لڑکے کے مار ڈالنے کا الہام ہوا اور باوجود اس کے وہ الہام ظاہرا شریف موسوی کے بر خلاف تھا مگر حضرت خضر نے اپنے الہام کے موافق عمل کیا اسی طرح اس امت میں بھی اگر بعضے اولیاء اللہ ایسے ہوں جن کو کچھ الہام ایسا ہو جو ظاہرا شریعت محمدی کے موافق نہ ہو تو بلحاظ شریعت ان اولیاء اللہ کے الہام پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا علمائے شریعت نے اس بات کا جواب یہ دیا ہے کہ اور انبیاء کی شریعت پر قیاس کر کے شریعت محمدی کے زمانہ میں کسی ولی کے واسطے آیا کرتے تھے آنحضرت ﷺ کی نبوت ایسی عام ہے کہ اولیاء تو درکنار آپ کے زمانہ میں حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک جتنے نبی صاحب شریعت ہیں اگر وہ زندہ اور موجود ہوتے تو سوا آپ کی پیروی کے دوسرا کوئی طریقہ اختیار نہیں کرسکتے تھے۔ چناچہ سورة آل عمران میں جہاں خدا تعالیٰ کا انبیاء سے عہد لینے کا ذکر ہے وہاں حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی صحیح بخاری وغیرہ کی روایت سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ ہر نبی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی پیروی کا عہد لیا ہے اسی واسط صحیح حدیث میں آپ نے فرمایا ہے اگر میرے زمانہ میں حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو ضرور میری پیروی کرتے یہ حدیث صحیح سند سے مسند امام احمد اور صحیح ابن حبان میں جابر بن عبد اللہ ؓ کی روایت سے اور مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے آئی ہے 1 ؎۔ غرض اولیاء اللہ کے الہام میں صحیح مذہب وہی ہے جو مشائخ صوفیہ کرام مثلا فضیل بن عیاض ابراہیم بن ادہم ابو سلیمان درانی معروف کرخی جنید بغدادی کے حوالہ سے سورة یونس میں گزر چکا ہے کہ ولی کا جو الہام شریعت کے موافق ہے وہ مقبول ہے نہیں تو نہیں اور صحیح روایتوں سے آنحضرت ﷺ کا جناب کی ہدایت کے لیے بھی مامور ہونا نصیبی کے جنات کا آپ پر اسلام لانا اور آپ کا سورة الرحمن ان کو پڑھ کر سنانا اور ہڈی اور لید سے آدمیوں کو استنجا کرنے سے آپ کا منع کرنا اور یہ فرمانا کہ یہ دونوں چیزیں تمہارے مسلمان بھائی جنات کی خوراک ہے یہ سب کچھ اس تفسیر میں بیان کردیا گیا ہے واسطے انسان تو کیا جنات میں بھی کوئی ولی ایسا نہیں قرار دیا جاسکتا جس کو خلاف شریعت محمد الہام ہوا اور وہ الہام مقبول ہو سکے اس بات میں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کس زمانے میں پیدا ہوئے اور اب زندہ ہیں یا نہیں اور وہ نبی تھے یا ولی علماء کا اختلاف ہے صحیح قول یہ ہے کہ ان کی پیدائش کا زمانہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے پہلے ہے اور وہ حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) کے دادا کے چچا کے بیٹے ہیں صحیح مسلم کی جابر ؓ بن عبد اللہ کی اس حدیث کے موافق جو آنحضرت ﷺ نے اپنی آخری عمر میں فرمائی ہے کہ سو برس کے بعد جتنے جاندار روئے زمین پر آج موجود ہیں ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا 2 ؎۔ امام بخاری (رح) ابن العربی اور کچھ اور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ خضر (علیہ السلام) اب زندہ نہیں ہیں لیکن علماء کی بڑی جماعت اسی طرف ہے کہ حضرت خضر زندہ ہیں اور آنحضرت ﷺ کی حدیث کے فرمانے کے وقت وہ دریا میں تھے اس لیے جس طرح ابلیس پر اس حدیث کا مطلب صادق نہیں آتا اسی طرح ان پر بھی نہیں آتا اور اکثر علماء کے نزدیک وہ بھی نبی ہیں لیکن رسول صاحب شریعت نہیں ہیں آنحضرت ﷺ اور کسی صحابی سے ان کا ملاقات کرنا سند صحیح سے ثابت نہیں ہوتا ہاں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز سے ان کا خلافت سے پہلے آن کر ملنا اور خلافت کی خوشخبری دینا تاریخ ابی عروبہ وغیرہ میں سند صحیح سے ثابت ہے 3 ؎۔ اس کہانی کو قدرے ثابت مانا ہے لیکن حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن جوزی وغیرہ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سند کسی کام کی نہیں (البدایہ والنہایہ ص 334 جلداول) اور دل لگتی بات بھی یہی ہے (ع۔ ح) ابن عساکر نے صحیح سند سے روایت کی ہے جس میں ابوزرعہ کہتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ انہوں نے مجھ کو امیر لوگوں کی صحبت سے اور امیروں کے دروازہ پر جانے سے منع کیا جب میں بوڑھا ہوگیا تو اس شخص کو اسی صورت میں پھر میں نے دیکھا اور اسی شخص نے پھر مجھ کو وہی نصیحت کی جو پہلی کی تھی جب میں نے اس شخص سے بات کرنی چاہی تو وہ شخص غائب ہوگیا میرا جی گواہی دیتا ہے کہ وہ خضر تھے۔ لیکن ایسی خیالی کہانیوں کی حیثیت کیا ہے ؟ (ع۔ ح) مگر یہ ابوزرعہ کے دل کی فقط ایک گواہی ہے کوئی روایت نہیں ہے تاریخ طبری وغیرہ میں ہے کہ حضرت خضر ( علیہ السلام) نے ذوالقرنین کے ساتھ سفر کیا ہے ان کو چشمہ حیات کا پانی خدا نے دکھلا دیا اور انہوں نے وہ پانی پی لیا ذوالقرنین اسی پانی سے محروم رہ گیا اس لیے حضرت خضر اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک قرآن شریف دنیا سے نہ اٹھے گا۔ مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی صحیح روایت سورة بنی اسرائیل میں گزر چکی ہے 4 ؎۔ کہ قیامت کے قریب قرآن شریف دنیا پر سے اٹھ جائے گا۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب الاصابہ فی معرقہ الصحابہ میں خضر (علیہ السلام) کی قیامت کے قرب تک زندہ رہنے کی روایتیں جو جمع کی ہیں اور ان میں اکثر روایتیں ضعیف ہیں۔ بلکہ ان میں کوئی بھی کام کی نہیں دیکھئے البدایہ ص 299‘ 325 تا 337 ج 1 میں اس پر تفصیلی بحث ہے ‘ لہٰذا صحیح حضرت خضر ( علیہ السلام) کی عذم حیات کا مسلک ہے جیسا کہ فتح البیان میں فرمایا ص 884 ج 2 (محمد عطاء اللہ حنیف ) 1 ؎ اس پر مفصل بحث کے لیے دیکھئے حاشیہ تفسیر ہذا جلد اول ص 248 (ع ‘ ح) 2 ؎ مشکوٰۃ 280 باب قرب الساعۃ الخ 3 ؎ حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری (ص 254 ج 3۔ 4 ؎ جلد ہذاص 65 دیکھئے۔
Top