Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 8
وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًاؕ
وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَجٰعِلُوْنَ : البتہ کرنے والے مَا عَلَيْهَا : جو اس پر صَعِيْدًا : صاف میدان جُرُزًا : بنجر (چٹیل)
اور جو چیز زمین پر ہے ہم اس کو (نابود کر کے) بنجر میدان کردیں گے۔
8:۔ اوپر دنیا کی زیب وزینت کا ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا کہ ہم اس کو زینت ورونق کے بعد ایسا تباہ اور برباد کریں گے کہ ساری زمین ایک چٹیل میدان رہ جائے گی قتادہ کا قول ہے کہ صعید اس زمین کو کہتے ہیں جس میں کسی طرح کی روئیدگی نہ ہو صحیح مسلم میں جابر ؓ بن عبداللہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے حق میں فرمایا سو برس کے اندر ان میں سے شاذونادر کوئی زندہ رہے 1 ؎۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ کی اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کی روایت سے جو حدیثیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ بازاروں میں کپڑوں کے تھان ‘ جنگل میں کھیتیاں ‘ باغ غرض نہریں سب کچھ یوں ہی پڑا رہے گا کہ یکایک پہلے صور کی آواز سے سب مخلوقات بالکل فنا ہوجائے 2 ؎۔ صحیح بخاری میں سہل بن سعد ؓ اور صحیح سند سے شعب الایمان بیہقی میں عبد اللہ بن مسعود ؓ کی جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جس زمین پر لوگوں کا حشر قائم ہوگا اس پر کھیتی باغ پہاڑ مکان دنیا کی زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز نہ ہوگی نہ اس زمین پر کسی گنہگار شخص نے کوئی گناہ کیا ہوگا 3 ؎۔ مطلب یہ ہے کہ یہ زمین فنا ہو کر حشر کے لیے دوسری نئی زمین پیدا ہوگی ‘ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سو برس کے اندر مکہ کے ان لوگوں میں سے کوئی شخص باقی نہ رہے گا جو مکہ کے پہاڑوں کے دور ہٹ جانے اور ان کی جگہ کھیتی کے لیے زمین کے نکل آنے کی اور مکہ میں نہروں کے جاری ہوجانے کی تمنا رکھتے ہیں اور پھر ان کی نسل میں سے جو لوگ پہلے صور کے زمانہ میں ہوں گے کھیتیاں باغ نہریں سب کچھ چھوڑ کر مرجائیں گے اور پھر آخر یہ زمین ہی نہ رہے گی جس پر کھیتی کی جاتی ہے باغ لگائے جاتے ہیں نہریں جاری کی جاتی ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے کہ ان کو ہمیشہ سرسبز رہنے والے باغوں ہمیشہ جاری رہنے والی نہروں کے قبضہ میں لانے کی تدبیر بتلائی جاتی ہے اور یہ لوگ اس سے غافل اور جھوڑ جانے کی چیزوں کی تمنا میں لگے ہوئے ہیں۔ ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے شداد بن اوس کی معتبر روایت کئی جگہ گزر چکی ہے 4 ؎۔ جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا عقلمند وہ شخص ہے جو مرنے سے پہلے مرنے کے لیے کچھ سامان کر لیوے اور نادان وہ شخص ہے جو اس سامان سے عمر بھر غافل رہے اور مرنے کے بعد بہبودی کی توقع رکھے اہل مکہ میں کے جن لوگوں کی نادانی کا ذکر اوپر گزرا ان کی حالت اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ 1 ؎ مشکوٰۃ ص 480 باب قرب الساعتہ۔ 2 ؎ الترغیب ص 293 کتاب البعث واہوال یوم القیامتہ۔ 3 ؎ الترغیب صر 294 ج 2 صفل فی الحشر وغیرہ۔ 4 ؎ مثلا تفسیر ہذا جلد دوم ص 169۔
Top