Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تم تَبْتَغُوْا : تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب فَاِذَآ : پھر جب اَفَضْتُمْ : تم لوٹو مِّنْ : سے عَرَفٰتٍ : عرفات فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عِنْدَ : نزدیک الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ : مشعر حرام وَاذْكُرُوْهُ : اور اسے یاد کرو كَمَا : جیسے ھَدٰىكُمْ : اسنے تمہیں ہدایت دی وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے لَمِنَ : ضرور۔ سے الضَّآلِّيْنَ : ناواقف
اس کا تمہیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بذریعہ تجارت) اپنے پروردگار سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعر حرام (یعنی مزدلفہ) میں خدا کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے
(198 ۔ 202) ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسلام سے پہلے موسم حج میں مکہ کے پاس تین بازار لگا کرتے تھے ان میں طرح طرح کی خریدو فروخت ہوتی تھی۔ اور سال بھر کی گذران اکثر لوگوں کی اس خریدو فروخت میں نکل آتی تھی اسلام کے بعد لوگوں کو تردو ہوا کہ اس تجارت کی وجہ سے ہمارے حج میں کچھ فتور نہ پڑتا ہو بلکہ اس طرح تجارت پیشہ اور اجرت پیشہ لوگوں کو دوسرے لوگ یہ کہ اٹھتے تھے کہ تم حاجی نہیں ہو بلکہ تجارت کی غرض سے مکہ آئے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اس تردد کو رفع کردیا 1۔ اس شان نزول پر اکثر صحابہ کا عمل ہے۔ چناچہ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ حضرت ہم لوگ مکہ تک اپنے اونٹ کرایہ کر کے بھیجتے ہیں اور اس ذیل میں ہم حج بھی کرلیا کرتے ہیں لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ تمہارا حج نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں میری روبرو ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہو کر اس طرح کا ذکر کیا تھا اسی وقت یہ آیت اتری اور آپ نے اس قسم کی تجارت و اجرت پیشہ لوگوں کو خاص طورو پر بلا کر اس آیت کا حکم سنادیا اور فرمادیا کہ تم لوگ بلا شک حاجی ہو 2۔ یہ حدیث مسند امام احمد بن حنبل (رح) میں بھی ہے اور اس کے طریقے کئی ہیں جس سے حدیث کو صحیح کہا جاسکتا ہے اور صحیح بخاری کی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے اس کی پوری تائید بھی ہوتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ احرام کے پہلے اور احرام کے بعد کسی حال میں لوگوں کو تجارت یا اجرت سے منع نہیں کیا کرتے تھے یہ جو فرمایا پھر طواف کو چلو جہاں سب لوگ چلیں۔ تفسیر اس کی یہ ہے کہ مکہ سے رات بسنے کے راستہ پر عرفان ایک جگہ ہے۔ نویں ذی الحجہ کے زوال کے بعد سے دسویں ذی الحجہ کی صبح سے پہلے وہاں جا کر ٹھہرنا حج کا ایک بڑار کن ہے۔ یہاں تک کہ حجۃ الوداع کے وقت جب آپ نے لوگوں کو مسائل بتائے تو تین تین دفعہ آپ نے فرمایا کہ بڑی چیز حج میں عرفات کا ٹھہرنا ہے قریش لوگ اسلام سے پہلے عرفات تک نہیں جاتے تھے کہ عرفات حرم کی حد سے باہر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ جہاں سے سب لوگ طواف کو چلتے ہیں تم بھی وہیں سے چلا کرو کہ حج میں عرفات کا جانا ضرور ہے یہ اس لئے فرمایا کہ باقی کے ارکان حج اور عمرہ میں مشترک ہیں۔ صرف یہ ایک رکن خاص امخاص حج میں ہی ہے عمرہ میں نہیں ہے جب یہی فوت ہوجائے گا تو خواہ مخوہ حج کا عمرہ رہ جائے گا۔ حاکم کی مستدرک میں مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے وقت عرفات میں آنحضرت ﷺ نے خطبہ پڑھا اور اسی خطبہ میں فرمایا کہ مشرکین عرفات سے غروب آفتاب کے پہلے اور مزدلفہ سے سورج نکلنے کے بعد واپس ہوا کرتے تھے اب طریقہ اسلامیہ یہ ہے کہ عرفات سے ہم غروب کے بعد اور مزدلفہ سے طلوع سے پہلے منیٰ کو واپس چلے جئایں گے حاکم نے اس حدیث کو صحیح شرط شیخین پر کہا ہے 1۔ قریش لوگ اسلام سے پہلے حج سے فارغ ہونے کے بعد اپنی باپ دادا کی مدح میں قصائد پڑھا کرتے تھے اسلام میں اللہ تعالیٰ کو اس طریقہ کا بدلنا منظور نظر ہوا۔ اس لئے اس آیت میں اس طریقہ کو بدل کر حکم فرمادیا کہ حج سے فرا غت کے بعد اس مدحیہ قصائد کے پڑھنے کا طریقہ موقوف کر کے اللہ کا ذکر کیا جائے اور اللہ سے ایسی دعا مانگنی چاہیے جس میں دین دنیا کی بھلائی ہو فقط دنیا کی بہودی پر گرویدہ نہیں ہونا چاہیے کہ فقط دنیا کی بہبودی کی گرویدگی آدمی کو آخرت سے محروم کردیتی ہے۔
Top