Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور کوئی شخص تو ایسا ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں تم کو دلکش معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے مافی الضمیر پر خدا کو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے
(204 ۔ 206) ۔ بعض مفسروں نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص اخنس بن شریق منافق کی شان میں یہ آیت اتری ہے وہ آنحضرت ﷺ کے پاس جب آتا تھا تو اسلام کی تائید میں بڑی میٹھی باتیں کرتا تھا اور جب آپ کے پاس سے جاتا تھا تو اسلام کی بد خواہی کی باتیں کرتا تھا اور طرح طرح کے جھگڑے اور فساد کھڑے کرتا تھا اور بعضوں نے کہا کہ واقعہ رجیع کی خبر جب مدینہ میں پہونچی تو بعض منافقوں نے ظاہر میں تو مسلمانوں کی ہمدردی کے کلمات ان شہداء کی شان میں منہ سے نکالے۔ لیکن باطن میں ان شہداء اور مسلمانوں کی ہجر اور مذمت ان کو مقصود تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کی مذمت اور شہداء رجیع کے مدح میں یہ آیت نازل فرمائی واقعہ رجیع کی پوری تفصیل تو بخاری میں حاصل اس واقعہ کا اسی قدر ہے کہ جنگ احد کے بعد دس صحابہ کرام کو آنحضرت ﷺ نے جاسوسی کے طور پر قریش کی خبر لانے کے لئے روانہ فرمایا تھا اور عاصم بن ثابت صحابی کو باقی کے نو شخصوں پر سردار قرار دیا تھا۔ دن بھر یہ لوگ پہاڑوں میں چھپے رہتے تھے اور رات کو راستہ چلتے تھے مذیل قبیلہ کے دیہات میں سے ایک گاؤں رجیع ہے وہاں کے پہاڑوں میں ایک روز انہوں نے مقام کیا اور رات کو راستہ چلتے چلتے مدینہ منورہ کی سر زمین کے چھوارے جو ان کے پاس بطور زاد راہ کے تھے وہ چھوارے انہوں نے کھا کر گٹھلیاں جنگل میں پھینک دیں ایک عورت اس جنگل میں نظر آتی تھیں بنی لحیان نے یہ سن کر خیال کیا کہ مدینہ کے کچھ لوگ ضرور مخالفانہ اس سر زمین پر آئے ہوں گے اس خیال سے بنی لحیان میں سے سو آدمی کے قریب ہتھیار باندھ کر مدینہ کے لوگوں کو تلاش میں نکلے اور رجیع مقام کے پاس طرفین کا مقابلہ ہوا پہلے بنی لحیان کے لوگوں نے ان دس شخصوں سے یہ کہا تھا کہ اگر تم ہتھیار ڈال کر ہماری امان میں آجاؤ تو ہم تمہاری جان بخشی کردیتے ہیں مگر صحابہ کرام کی ہمت ایسی پست ہمتی کی باتوں کو کب گوارا کرتی تھی۔ حضرت عاصم بن ثابت ؓ نے صاف فرما دیا کہ ہم کو مشرکوں کی امان ہرگز منظور نہیں آخر لڑائی شروع ہوئی اور عاصم بن ثابت اور چھ شخصوں کے علاو یہ سات صحابی تو شہید ہوئے اور تین شخصوں کو مشرکوں نے قید کرلیا عاصم بن ثابت ؓ نے جنگ بدر میں مشرکوں کے بڑے نامی سرداروں کو قتل کیا تھا اس جلن سے مشرکوں نے چاہا تھا کہ حضرت عاصم ؓ کی لاش بہم پہنچا کر کچھ بےادبی کریں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیاں لاش کے گرد گرد بھیج دیں ان مکھیوں نے لاش کی حفاظت کی اور مشرکین لاش تک نہ پہنچ سکے گرفتار شدہ تین شخصوں کو بھی مکہ میں لے جا کر آخر کو مشرکوں نے شہید کر ڈالا۔ جس میں ایک خبیب ؓ بھی تھے جن کے شہید ہونے کا بڑا درد ناک واقعہ بخاری اور شرح بخاری میں بالتفصیل مذکور ہے۔ 1۔ حافظ ابن کثیر (رح) نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ آیت ان دونوں سببوں میں سے خواہ کسی سبب سے یا دونوں سببوں کے مل کر ایک سبب ہوجانے سے نازل ہوئی۔ لیکن آیت کا مضمون عام منافقوں کی شان میں ہے 2۔ اور آیت کے معنی میں مسلمانوں کو منافقوں کی عادتوں سے پرہیز کرنے اور شہدا رجیع جیسی ہمت اختیار کرنے ہدایت ہے۔
Top