Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
11۔ 15:۔ حضرت عائشہ ؓ پر جو لوگوں نے جھوٹا الزام لگایا تھا ‘ ان آیتوں میں اس کا ذکر ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں سات آٹھ صحابیوں کی روایت سے یہ قصہ آیا 1 ؎ ہے ‘ حاصل اس قصے کا یہ ہے کہ 6 ھ میں بنی مصطلق کی لڑائی سے واپسی کے وقت لشکر کے کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہ ؓ رفع حاجت کے لیے لشکر کے پڑاؤ سے علیحدہ جنگل میں چلی گئیں ‘ وہاں اتفاق سے ان کے گلے کا پوتھوں کا ہار گر پڑا یہ تو اس ہار کے ڈھونڈنے میں رہیں اور یہاں لشکر کا کوچ ہوگیا ‘ کوچ کے وقت اونٹ والوں نے یہ سمجھا کہ معمول کے موافق حضرت عائشہ ؓ اونٹ کے کجاوہ میں ہیں ‘ اس لیے انہوں نے وہ خالی کجاوہ اونٹ پر لاد دیا اور لشکر کے انٹوں کے ساتھ یہ خالی کجاوہ کا اونٹ بھی روانہ ہوگیا ‘ سفر سے پلٹنے کی یہ اخیر منزل تھی اس واسطے پچھلی رات کا چلا ہوا لشکر صبح کو مدینہ میں پہنچ گیا ‘ حضرت عائشہ ؓ کو بہت دیر کی تلاش کے بعد جب وہ ہار مل گیا ‘ تو یہ جنگل سے پڑاؤ میں واپس آئیں اور دیکھا کہ لشکر روانہ ہوگیا تو نیند کے غلبہ کے سبب سے اپنی چادر اوڑھ کر اس خیال سے سوگئیں کہ جب لشکر کے اترنے کے وقت ان کے کجاوے کو لوگ خالی پاویں گے تو ان کی تلاش میں کوئی نہ کوئی پڑاؤ تک ضرور آوے گا ‘ یہاں سفر میں ایک صحابی لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے جن کا نام صفوان بن المعطل تھا ‘ یہ صحابی جب پڑاؤ کی طرف سے گزرے تو انہوں نے پڑاؤ میں ایک اکیلے شخص کو سوتا ہوا دیکھ کر افسوس کے طور پر اناللہ پڑھی ‘ جب صفوان نے حضرت عائشہ ؓ کو پہچان لیا تو انہوں نے حضرت عائشہ سے کچھ بات نہیں کی بلکہ اپنے اونٹ کو حضرت عائشہ ؓ کے قریب لاکر بٹھایا اور خود اونٹ پر سے اتر پڑے ‘ حضرت عائشہ سمجھ گئیں ‘ کہ صفوان ؓ اپنے اونٹ پر بٹھا کر حضرت عائشہ ؓ کو مدینہ پہنچا دینا چاہتے ہیں اس لیے حضرت عائشہ ؓ اس اونٹ پر بیٹھ گئیں اور صفوان ؓ پیدل اس اونٹ کے ساتھ ہوئے ‘ لشکر کے مدینہ پہنچنے کے کچھ دیر کے بعد یہ اونٹ بھی مدینہ پہنچ گیا ‘ صفوان ؓ اور عائشہ ؓ کا کچھ دیر تک اس سفر میں جو ساتھ رہا ‘ اس پر کچھ لوگوں نے صفوان ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کی شان میں بہتان کا چرچا کیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اس بہتان کو جھوٹا قرار دیا ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ اس بہتان کا چرچا کر رہے ہیں وہ اہل قبیلہ میں سے ہی کچھ لوگ میں لیکن پکے مسلمان اس چرچے کو اپنے حق میں کچھ برا نہ سمجھیں بلکہ ان کے حق میں یہ چرچا ایک تو اس لیے بہتر ہے کہ اس چرچے پر صبر کرنے کا اجر ان کو ملے گا ‘ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر اس بہتان کو جھوٹا کردیا جس سے اس چرچے کے سبب سے آئندہ رنج کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ‘ پھر فرمایا یوں تو جتنے لوگ اس بہتان میں شریک ہیں ان سب کو جرم کے موافق سزا دی جاوے گی ‘ لیکن جس نے اس گناہ کا بڑا بوجھ اپنے سر پر لیا ‘ وہ سخت عذاب میں پکڑا جاوے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم کی جس روایت کا اوپر ذکر گزرا ‘ اس میں یہ بھی ہے کہ اس گناہ کا بڑا بوجھ اپنے سر پر جس شخص نے لیا وہ عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا کیونکہ اس نے اس بہتان کے قصہ کو زیادہ شہرت دی اسی واسطے حسان ؓ ‘ مسطح ؓ وغیرہ کو دنیا میں کوڑے مارنے کی سزا دی گئی اور عبد اللہ بن ابی کی سزا کا مدار عقبیٰ پر رہا ‘ آگے فرمایا جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دوسروں کو اپنے جیسا مسلمان جانتے ہیں تو منافقوں سے اس بہتان کا چرچا سن کر اپنے بھائی مسلمانوں کے حق میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور بغیر چار گواہوں کی گواہی کے اس چرچے کو جھوٹا کیوں نہیں جانا ‘ اگر مسلمانوں کے حال پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو فقط کوڑوں کی سزا کافی نہ ٹھہرتی بلکہ اس جرم کی سزا میں ان لوگوں پر کوئی عذاب آجاتا جنہوں نے اس پہتان کو جس طرح کسی سے سنا اسی طرح آپ بھی بکنے لگے اور ایسی بات کو چھوٹی سی ایک بات سمجھے جو اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا نادانی سے بعضے کلمے ایسے انسان کی زبان سے نکل جاتے ہیں جن کے سبب سے ایک مدت دراز تک اس کو دوزخ میں رہنا پڑے گا ‘ آخری آیت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ ملاحظہ ہو فتح الباری ص 264 ج 4 و تفسیر ابن کثیر ص 271۔ 272 ج 3 ) (1 ؎ مشکوٰۃ ص 481 باب حفظ اللسان والغیبہ والشتم۔ )
Top