Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 19
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ١ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يُحِبُّوْنَ : پسند کرتے ہیں اَنْ : کہ تَشِيْعَ : پھیلے الْفَاحِشَةُ : بےحیائی فِي الَّذِيْنَ : میں جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے (مومن) لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بےحیائی (یعنی تہمت بدکاری کی خبر) پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
19۔ 21:۔ ایمان والوں سے ظاہری مطلب شان نزول کے طور پر اگرچہ حضرت عائشہ ؓ اور صفوان ؓ اور ان دونوں کے ایماندار رشتہ داری ہیں اور بدکاری کا دل سے چرچا کرنے والوں سے مطلب عبداللہ بن ابی ‘ اس کے ساتھ اور وہ مسلمان لوگ ہیں جو منافقوں سے سن کر اس بہتان کے چرچے میں زبانی شریک تھے لیکن آیت کا مطلب عام ہے ‘ اب بھی اس قسم کے چرچا کرنے والے اور جن کے حق میں چرچا کیا جاوے قیامت تک کے سب لوگ آیت کے حکم میں داخل ہیں اور دنیا میں ان جھوٹا بہتان لگانے والوں کو کوڑے پٹنے کی سزا دی جاوے گی اور اگر بغیر توبہ کے اس عادت پر مرجاویں گے تو عقبیٰ میں جدا عذاب ہوگا ‘ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کو جھوٹے سچے کا حال خوب معلوم ہے ‘ پھر فرمایا ‘ یہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اور مہربانی ہے کہ اس نے ان جھوٹا بہتان لگانے والوں پر جلدی سے کوئی عذاب نہیں بھیجا ‘ آگے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ شیطان لوگوں کو اپنی یہی بےحیائی کی باتیں سکھاتا ہے اس لیے ہر ایماندار شخص کو چاہیے کہ شیطان کے کہنے پر نہ چلے اور یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے کہ جو ایماندار شخص شیطان کے حملے سے بچنا چاہتا ہے اور شیطان کے حملہ کے وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شیطان کے حملے سے بچا کر نیک راہ سے لگ جانے کی توفیق دیتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شیطان کا حملہ ایسا زبردست ہے کہ اس سے انسان کا بچنا دشوار ہے ‘ آخر کو فرمایا اللہ تعالیٰ ہر ایک نیک شخص کی منہ کی بات کو سنتا اور دل کے ارادہ کو جانتا ہے ‘ خالص دل سے جو کوئی شیطان کے حملہ کے روکنے کی التجا کرے گا اللہ تعالیٰ ضرور اس کی مدد فرمائے گا ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 1 ؎ سے انس بن مالک کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ بہکانے کے حملہ کے وقت شیطان خون کی طرح انسان کے تمام جسم میں سرایت کرجاتا ہے ‘ ترمذی وغیرہ کے حوالہ سے حارث اشعری کی صحیح حدیث بھی کئی جگہ کزر 2 ؎ چکی ہے کہ سوائے یاد الٰہی کے اور کوئی چیز انسان کو شیطان کے حملہ سے نہیں بچا سکتی ‘ ان حدیثوں سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اگرچہ شیطان کا حملہ بڑا زبردست ہے لیکن جو شخص اس کے حملہ کے وقت اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے گا وہ شیطان کے حملہ سے بچ سکتا ہے۔ (1 ؎ نیز دیکھو مشکوٰۃ ص 18 باب الوسوسہ ) (2 ؎ مثلا ص 368 ج 3 تفسیر ہذا ‘ )
Top