Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 26
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ١ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ١ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠   ۧ
اَلْخَبِيْثٰتُ : ناپاک (گندی) عورتیں لِلْخَبِيْثِيْنَ : گندے مردوں کے لیے وَالْخَبِيْثُوْنَ : اور گندے مرد لِلْخَبِيْثٰتِ : گندی عورتوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتُ : اور پاک عورتیں لِلطَّيِّبِيْنَ : پاک مردوں کے لیے وَالطَّيِّبُوْنَ : اور پاک مرد (جمع) لِلطَّيِّبٰتِ : پاک عورتوں کے لیے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ مُبَرَّءُوْنَ : مبرا ہیں مِمَّا : اس سے جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : مغفرت وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت کی
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے یہ (پاک لوگ) ان (بد گویوں) کی باتوں سے بری ہیں (اور) ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے
26:۔ طبرانی میں حکم بن عتبہ کی روایت سے جس کی سند صحیح ہے ‘ حضرت عائشہ ؓ کے قصہ کے شروع سے یہاں تک پندرہ آیتوں کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان باندھا ‘ تو آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ تمہارے حق میں لوگ جو کچھ کہتے ہیں اگر تمہارے پاس اس بہتان کے جھٹلانے کا کوئی عذر ہو تو تم بھی اپنا وہ عذر بیان کرو حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ میں سچی ہوں ‘ اس لیے مجھ کو توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ میری برأت کا کوئی عذر آسمان سے نازل فرما دے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے شروع قصہ سے یہاں تک یہ پندرہ آیتیں نازل فرمائیں۔ دشمن حضرت عائشہ ؓ کا حکم : علمائے اسلام نے متفق ہو کر یہ بات کہی ہے کہ اتنی بڑی برأت کے بعد جو فرقہ حضرت عائشہ ؓ کو اب بھی عیب لگاتا ہے وہ قرآن شریف کا منکر فرقہ ہے اس فرقے کا کافر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کیونکہ وہ فرقہ قرآن کی آیتوں کا منکر ہے۔ حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ اس بہتان میں جس قسم کے لوگ شریک تھے ان کو اللہ تعالیٰ اوپر کی آیتوں میں ہر طرح سے جھوٹا ٹھہرا کر ہر ایک کو اس کے مناسب حال تنبیہہ فرمائی ‘ بعد اس کے اب اس آیت میں فرمایا ہے کہ اس بہتان کے باندھنے والے ناسمجھ ہیں ‘ اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ کے رسول کی بی بی سے ایسا برا کام کیونکر ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں پیدا کی ہیں ‘ پھر اللہ کے رسول سے بڑھ کر کون نیک مرد ہوگا ‘ ایسی گندی باتیں تو گندے مرد اور گندی عورتوں میں پھیلتی ہیں جن لوگوں کی شان میں یہ عیب لگانے والے گندی باتیں منہ سے نکالتے ہیں وہ ان باتوں سے بالکل بےلگاؤ ہیں ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے عقبیٰ میں بخشش اور بڑی بڑی نعمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اہل جنت کے لیے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی گئیں نہ وہ کسی نے آنکھ سے دیکھیں نہ کان سے سنیں ‘ نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ یہ حدیث وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے۔
Top