Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے (اور) جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے
30:۔ اوپر ذکر تھا کہ ایک رشتہ دار دوسرے رشتہ دار کے گھر میں بےکھنکارے ‘ بیخبر ی کی حالت میں نہ جاوے کیونکہ بیخبر ی کی حالت میں چلے جانے سے ننگی کھلی اجنبی عورتوں کے سامنے آجانے کا اندیشہ ہے ‘ اس آیت میں فرمایا ‘ اجازت کے بعد دوسرے رشتہ دار کے گھر میں جانے سے یا بازار وغیرہ میں اجنبی عورت نظر پڑجاوے تو ایماندار آدمی کو چاہیے کہ اپنی نگاہ نیچی کرے مرد کے نیچی نگاہ کرلینے کی حالت عورت مرد کی صورت دیکھ سکتی ہے ‘ اس واسطے اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے آیت کو پوری تعمیل ہونے کی غرض سے ایسے موقع پر حکم دیا کہ ایماندار شخص اجنبی عورت کی طرف سے اپنا منہ پھیر لے ‘ چناچہ مسند امام احمد ‘ صحیح مسلم ‘ ترمذی اور ابوداود میں جریر بن عبد اللہ بجلی سے جو روایت 3 ؎ ہے ‘ اس میں یہ ذکر تفصیل سے ہے ‘ یہ جریر بن عبد اللہ کوفہ میں اکثر رہے ہیں اس لیے ان کو کوفی صحابہ میں شمار کرنا چاہیے ‘ یہ بہت خوبصورت اور اس امت کے یوسف مشہور تھے ‘ اسی واسطے انہوں نے اجنبی عورتوں پر نظر پڑجانے کا مسئلہ اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا تھا ‘ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے بھائی فضل بن عباس ؓ کا قصہ 4 ؎ ہے جب اللہ کے رسول ﷺ نے فضل بن عباس ؓ کا منہ ایک عورت کی طرف سے پھیر کر دوسری طرف کردیا تھا ‘ معتبر سند سے ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں حضرت علی ؓ کی حدیث 5 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ کسی ایماندار شخص کی نظر کسی اجنبی عورت پر اتفاق سے پڑجاوے تو پہلی نظر معاف ہے ‘ لیکن پھر ایماندار شخص کو نگاہ نیچی کرلینے کا ادھر سے منہ پھر لینے کا حکم ہے ‘ ترمذی ‘ نسائی ‘ دارمی ‘ ابن حبان وغیرہ میں مغیرہ بن شعبہ سے روایت 6 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جب کسی شخص کا ارادہ کسی عورت سے نکاح کرنے کا ہو تو اس شخص کا اس عورت کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا اچھا ہے ‘ کیونکہ اس سے نکاح کے بعد ان آیتوں میں رانڈ عورتوں اور نیک غلام اور لونڈیوں کے نکاح کردینے کا حکم بیان فرمایا ‘ ایامی ایم کی جمع ہے اور ایم کا لفظ رانڈ عورت اور رنڈوے مرد دونوں پر بولا جاتا ہے ‘ اس لیے حاصل مطلب آیتوں کا یہ ہے ‘ اسے مسلمانوں کے گروہ تم کو چاہیے کہ اپنے گروہ میں کی رانڈ عورتوں اور رنڈوے مردوں کو بغیر نکاح کے بیٹھا نہ رہنے دو بلکہ سمجھا بجھا کر ان کا اور اپنے نیک غلام لونڈیوں کا نکاح کرادو پھر فرمایا نکاح سے پہلے اگر ان میں کا کوئی تنگ دست ہو تو تنگدستی کے عذر سے نکاح کو نہ روکا جاوے۔ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی تنگدستی کو رفع کر کے انہیں خوشحال کر دے گا کیونکہ اللہ کا فضل اور اس کا خزانہ بہت بڑا ہے اور وہ اپنے بندوں کی ضرورتوں سے خوب واقف ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے 1 ؎ حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں بچہ کا پتلا تیار ہوتا ہے تو اس میں روح کے پھونکے جانے سے پہلے اس کا رزق لوح محفوظ کے نوشتہ کے موافق قرار دیا جاتا ہے اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ نکاح کے بعد میاں بی بی دونوں کا رزق ایک کہ ہوجانے سے کچھ تو نکاح سے یوں رزق بڑھ جاتا ہے علاوہ اس کے اکثر سلف نے اپنا یہ تجربہ بھی بیان کیا ہے کہ پارسائی کی نیت سے نکاح کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ مقررہ رزق میں برکت دیتا ہے ‘ ترمذی وغیرہ میں ابوہریرہ ؓ سے صحیح روایت 2 ؎ ہے کہ پارسائی کی نیت سے نکاح کرنے والے شخص کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اس حدیث سے مسلم کے تجربہ کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ رزق میں برکت کا ہونا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مدد ہے آگے فرمایا جو لوگ بالکل ایسے تنگدست ہوں کہ کسی طرح کا نکاح کا بار نہ اٹھا سکتے ہوں تو جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو کسی قدر صاحب مقدور نہ کر دیوے ‘ اس وقت تک ان کو اپنی حالت پر صبر کرنا اور بدکاری سے بچنا چاہیے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت اوپر گزر چکی ‘ اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کو روزے رکھنے کی ہدایت فرما کر یہ فرمایا ہے کہ روزے رکھنے سے مردانگی کی قوت کم ہوجاتی ہے جو آقا اپنے غلام کو یہ کتابت کردے کہ اس قدر رقم ادا کرنے کے بعد وہ غلام آزاد ہے ‘ ایسے غلام کو مکاتب کہتے ہیں ‘ آگے ایسے ہی غلام کا ذکر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس طرح کی کتابت کا چاہنے والا غلام اگر کتابت کی رقم کمانے کے قابل نظر آوے تو اس سے کتابت کا معاملہ کرلیا جاوے یہ جو فرمایا اگر کتابت کی رقم کمانے کے قابل نظر آئے تو کتابت کے چاہنے والے غلام سے کتابت کا معاملہ کرلیا جاوے ‘ اس سے ان علماء کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو کتابت کے فرض ہونے کے قائل نہیں ہیں ‘ کیونکہ آیت میں کتابت کو آقا کی مرضی پر رکھا ہے جو کہ حکم کے فرضی ہونے کی صورت نہیں ہے پھر فرمایا کہ جب کتابت کا معاملہ ٹھہر جاوے تو ہر ایک مسلمان صدقہ خیرات کی رقم میں سے ایسے غلام کو کچھ مدد دے دیوے تاکہ یہ بےچارہ جلدی سے اپنے ذمہ کی رقم ادا کر کے آزاد ہوجاوے۔ (3 ؎ مشکوٰۃ ص 268 باب النظرالی املحظوبۃ وبیان العورات و تفسیر ابن کثشر ص 281 ج 3 و تفسیر الدر المنثور ص 40 ج 5 ) (4 ؎ صحیح بخاری باب الحج عمن لا یستطیع الثبت علی الدابۃ 12 ) (5 ؎ مشکوٰۃ ص 269 تفسیر ابن کثیر 282 ج 3 ) (6 ؎ مشکوٰۃ ص 269 ) (1 ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر ) (2 ؎ مشکوٰۃ کتاب النکاح ‘ والترغیب ص 43 ج 3۔ )
Top