Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 36
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ١ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ
فِيْ بُيُوْتٍ : ان گھروں میں اَذِنَ : حکم دیا اللّٰهُ : اللہ اَنْ تُرْفَعَ : کہ بلند کیا جائے وَيُذْكَرَ : اور لیا جائے فِيْهَا : ان میں اسْمُهٗ : اس کا نام يُسَبِّحُ : تسبیح کرتے ہیں لَهٗ : اس کی فِيْهَا : ان میں بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
(وہ قندیل) ان گھروں میں (ہے) جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بلند کیے جائیں اور وہاں خدا کے نام کا ذکر کیا جائے (اور) ان میں صبح و شام اسکی تسبیح کرتے رہیں
36۔ 38:۔ عمرو بن میمون کوفی ثقہ تابعیوں میں ہیں ‘ حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایت ہے ‘ یہ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ اکثر صحابہ ؓ بیت کی تفسیر مساجد کی بیان کیا کرتے تھے ‘ صحابہ ؓ کی اس تفسیر کے موافق حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ عالم ارواح کے نور ہدایت کی جو روشنی ہر ایک ایماندار شخص کے دل میں ہے ‘ اس کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کیونکہ آدمی کے دل کا حال سوائے اس کے اور کوئی نہیں جانتا ‘ ہاں جو لوگ قیامت کے دن کی آفتوں سے ڈر کر مسجدوں میں نماز کے لیے اس طرح وقت پر حاضر ہوتے ہیں کہ دنیا کی کوئی سوداگری ان کو اس حاضری سے باز نہیں رکھ سکتی اور زکوٰۃ کے وقت شریعت کے حکم کے موافق یہ لوگ زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان لوگوں کے دل میں عالم ارواح کے نور ہدایت کی پوری روشنی باقی ہے ‘ پھر فرمایا یہ لوگ جو نیک کام کرتے ہیں وہ کسی کے دکھاوے کے لیے نہیں کرتے بلکہ ان کا ہر ایک نیک کام اس نیت سے ہوتا ہے کہ بارگاہ الٰہی سے قیامت کے دن اس نیک کام کا اچھا بدلہ عطا ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور کچھ زیادہ بھی ان کو دیوے جو نیک عمل کی جزا سے بڑھ کر ہو ‘ دس گنے سے لے کر سات سو تک اور بعضی نیکیوں کی اس سے بھی زیادہ بدلہ کی صحیح روایتیں جو کئی جگہ گزر چکی ہیں ‘ وہ روایتیں اَحْسَنَ مَاعَمِلُوْا کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ نیت کے خالص ہونے کے حساب سے جس قدر بہتر عمل ہوگا ‘ اس سے بہتر بدلہ ملے گا ‘ ان نیک لوگوں کی امید کو پورا کرنے کے لیے آخری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ایسا ہی بڑا ہے کہ قیامت کے دن وہ جس کو چاہے گا نیک عملوں کی جزا سے بڑھ کر نعمتیں عطا فرماوے گا ‘ صحیح مسلم ‘ مسند امام احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ ؓ اور بریدۃ ؓ سے جو روایتیں 1 ؎ ہیں ‘ ان میں اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا جو شخص ایسا دکھائی دیوے ‘ جو مسجد میں آوازیں دے کر اپنے بھاگے ہوئے اونٹ کو بلا رہا ہو تو اس کے حق میں یہ بددعا کرنی چاہیے ‘ خدا کرے کہ ان کا اونٹ ہمیشہ بھاگا ہوا رہے اور یہ بددعا اس لیے کی جاوے ‘ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں ‘ دنیا کے کاموں کے لیے نہیں بنائی گئیں ‘ آیت میں مسجدوں کو عالم ارواح کے نور ہدایت کے ظاہر ہونے کی جگہ جو فرمایا ‘ اس کا مطلب ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ مسجدیں ایسے ہی کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں جو عالم ارواح کے نور ہدایت کے موافق ہیں ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جب جنتیوں کو سب طرح کی نعمتیں جنت میں مل چکیں گی اور جنتی ان نعمتوں سے خوش ہوجاویں گے تو اللہ فرمائے گا ‘ نیک عملوں کو جزا سے بڑھ کر تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کا ایک یہ فضل ہے کہ اب اللہ تعالیٰ ہمیشہ تم سے راضی اور خوش رہے گا ‘ کبھی ناخوش نہ ہوگا ‘ غلام کے لیے ہمیشہ کی آقا کی طرف سے خوشنودی کی خوشخبری ایک بےبدل نعمت ہے ‘ اس لیے یہ نعمت تمام نیک عملوں کی جزا سے بڑھ کر ایک نعمت شمار کی جاوے گی ‘ آیت میں نیک عملوں کی جزا سے بڑھ کر اللہ کے فضل کا جو ذکر ہے ‘ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔ (1 ؎ ابن کثیر ص 292 ج 3 ) (2 ؎ مشکوٰۃ ص 497 باب صنقہ الجنۃ وہلہا۔ )
Top