Ahsan-ut-Tafaseer - An-Noor : 41
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ١ؕ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يُسَبِّحُ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لَهٗ : اس کی مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالطَّيْرُ : اور پرندے صٰٓفّٰتٍ : پر پھیلائے ہوئے كُلٌّ : ہر ایک قَدْ عَلِمَ : جان لی صَلَاتَهٗ : اپنی دعا وَتَسْبِيْحَهٗ : اور اپنی تسبیح وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی اور اور سب اپنی نماز اور تسبیح کے طریقے سے واقف ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں (سب) خدا کو معلوم ہے
41۔ 42:۔ مجاہد کے قول کے موافق نماز کا حکم انسان کے حق میں ہے اور حسب حال یاد الٰہی کا حکم باقی کی مخلوقات کے حق میں ہے ‘ قرآن شریف میں تسبیح کا ذکر بعضے جگہ تسبیح کا لفظ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی کل چیزیں اپنی اپنی زبان میں ہر وقت اللہ کو یاد کرتی اور اس کے نام کی تسبیح پڑھتی ہیں ‘ بعض مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ جنات اور انسان کے سوائے اور مخلوقات کی تسبیح زبان حال سے ہے ‘ زبان قال سے نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سوائے جنات اور انسان کے اور مخلوقات کی تسبیح میں کسی طرح کی گویائی نہیں ہے بلکہ یہ مخلوقات اللہ تعالیٰ کے حکم کی جو تابع ہے اس مخلوقات کی یہی حالت اس کی تسبیح ہے ‘ ان مفسروں کا یہ قول بعض صحیح روایتوں کے برخلاف ہے چناچہ مثلا صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے 2 ؎ روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک روز اللہ کے رسول ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ان دونوں قبروں میں جو مردے دفن ہیں ان پر عذاب قبر ہو رہا ہے یہ فرما کر آپ نے ایک ہری ٹہنی درخت کی لی اور اس کی دو شاخیں کیں اور یہ دونوں ان دونوں قبروں پر لگا کر فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی ‘ شاید ان مردوں کے عذاب قبر میں کچھ تخفیف ہوجاوے گی اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ ہرے درخت کی ٹہنی جب تک ہری رہتی ہے تو وہ اپنی زبان کی ایک طرح کی خاص گویائی سے اللہ کی یاد کرتی ہے اور ان دونوں شاخوں کی تسبیح تھی جس کی برکت سے عذاب قبر میں تخفیف ہوئی اگر زبان حال کی تسبیح شریعت میں مقصود ہوتی ‘ تو ان دونوں شاخوں کے سوکھ جانے کے بعد بھی ان کی تسبیح اور عذاب قبر کی تخفیف باقی رہ سکتی تھی ‘ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے روایت 1 ؎ ہے کہ کھانا کھاتے وقت ہم صحابہ لوگ کھانے کی چیزوں کی تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے ‘ اس روایت سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ ان کھانے کی چیزوں کی تسبیح زبان حال سے نہیں تھی بلکہ اتنی گویائی کی آواز سے تھی جو آواز صحابہ ؓ کے کانوں میں آیا کرتی تھی ‘ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اکیلے اللہ کی حکومت ہے اس کی حکومت میں کوئی اس کا شریک نہیں ‘ اس لیے آسمان پر فرشتے زمین پر جنات اور انسان اور آسمان و زمین کے درمیان اڑتے ہوئے جانور اپنی زبان میں اللہ کی یاد میں ہر وقت لگے ہوئے ہیں ‘ سورة النحل میں گزر چکا ہے کہ جو لوگ خوشی سے خالص اللہ کی یاد اور اس کی بندگی نہیں کرتے ‘ دوپہر سے پہلے سیدھے ہاتھ کی طرف اور دوپہر کے بعد الٹے ہاتھ کی طرف ان کا سایہ جو آجاتا ہے ‘ سایہ کے ذریعے سے ایسے لوگوں کے پیچھے بھی اللہ کی بندگی لگی ہوئی ہے وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑ اور درخت جب سب ناسمجھ چیزیں اپنے پیدا کرنے والے کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کام معلوم ہیں ‘ وقت مقررہ پر ایسے لوگوں کو اپنے عملوں کی پوری سزا بھگتنی پڑے گی ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ لوگوں کے رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے ہر روز اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش ہوتے رہتے ہیں ‘ اسی طرح صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث 2 ؎ بھی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا میں جو کچھ ہونے والا تھا ‘ اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے ان حدیثوں کو وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ اگرچہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے بھی وہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے باہر نہیں تھا ‘ لیکن بنظر انصاف جزا وسزا کے فیصلہ کا مدار اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب پر نہیں رکھا بلکہ علم کے ظہور پر رکھا ہے اور اس ظہور کے ہر وقت ملاحظہ فرمانے کا یہ انتظام قرار دیا کہ صبح وشام لوگوں کے اعمال نامے ملاحظہ فرمائے جاتے ہیں وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے ظہور کے موافق ہر روز صبح وشام لوگوں کے اعمال نامے جو اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پیش ہوتے ہیں ‘ ان کے موافق ہر ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو جوابدہی کرنی پڑے گی اور پھر جزا وسزا کا فیصلہ ہوگا۔ (2 ؎ مشکوٰۃ باب آداب الخلاء ) (1 ؎ مشکوٰۃ ص 538 باب المعجزات ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر۔ )
Top