بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م
1 تا 4۔ حروف مقطعات کا ذکر سورة بقر میں گذر چکا ہے تفسیر شعبی تفسیر ابن ابی حاتم معالم التتریل وغیرہ 1 ؎ میں مجاہد اور قتادہ کے قول کے موافق جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے مکہ سے ہجرت فرمانے کے بعد کچھ مسلمان مکہ میں ایسے رہ گئے تھے جن کو مشرک لوگ ہجرت سے بھی روکتے تھے اور مکہ میں بھی ان کو امن سے نہیں رہنے دیتے تھے بلکہ طرح طرح کی تکلیفیں ان مسلمانوں کو ہر قت دیتے تھے جن تکلیفوں سے وہ مسلمان تنگ دل تھے ان کی ہمت بڑھانے لے لیے مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں جب مدینہ سے ان کے دوست صحابہ ؓ نے ان کو ان آیتوں کے نازل ہونے کا حال لکھ کر مکہ میں بھیجا تو وہ مشرکین سے لڑ کر ہجرت کے لیے مکہ سے نکلنے کو مستعد ہوگئے اور اپنے ارادہ کے موافق ہجرت کی نیت سے نکلے اور مشرکین نے ان کو روکا اور لڑائی ہو کر کچھ مسلمان تو شہید ہوگئے اور کچھ مدینہ میں مہا جربن کر پہنچ گئے صحیح مسلم کی حضرت ابوہریرہ ؓ کی وہ مشہور حدیث 2 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو اپنی نعلین مبارک نشانی کے طور پردے کر لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے کو بھیجا تھا کہ جو کوئی شخص دل سے کلمہ شہادت پڑھے گا وہ جنتی ہے اور حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو اس بشارت سے منع کیا تھا اور جب آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے اس منع کرنے کا سبب پوچھا تھا تو حضرت عمر ؓ نے یہ سبب عرض کیا تھا کہ اس بشارت کے سننے کے بعد لوگ ایسے نیک عملوں سے باز رہ جاویں گے جن عملوں کے سبب سے ان کو بڑے بڑے درجے جنت میں مل سکتے ہیں ان آیتوں کی وہ صحیح حدیث پوری تفسیر ہے کیوں کہ اس کا بھی وہی مطلب سے کہ اگر فقط مونہ سے کلمہ شہادت کے کہ لینے پر لوگوں کو چھوڑ دیا جائے اور نقصان مال اور جان سے ان کو اللہ تعالیٰ نہ آزمائے تو نقصان کے وقت صبر کرنے سے جو درجے ان لوگوں کو ملنے والے ہیں ان درجوں سے وہ محروم رہ جائیں گے۔ مثلا صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ عباس ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ننگا کر کے آگ میں ڈالا اس چانچ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قیامت کے دن یہ مرتبہ 3 ؎ دلوایا کہ سب 4 ؎ سے پہلے ان کو اس دن کپڑے پہنائے جائیں گے اللہ تعالیٰ کا علم قدیمی ہے دنیا کی روز کی نئی باتوں سے کوئی جدید علم اللہ تعالیٰ کا نہیں بڑھتا لیکن ازل میں مثلا اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ جب دنیا پیدا ہوگی تو ایک شخص ابوجہل پیدا ہوگا اور باوجود رسول وقت کے سمجھانے کے وہ ایمان نہ لائے گا اور حالت کفر میں مارا جائے گا جب دنیا پیدا ہوئی اور ابوجہل پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ کے اس علم ازلی کی ظہور ہوگا اس ظہور ازلی کو اللہ کے جانچ اس واسطے جگہ جگہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے کہ نیکی اور کی جزاو سزا اللہ تعالیٰ نے اس جانچ پر موقوف رکھی ہے اپنے علم ازلی پر موقوف نہیں رکھی تاکہ لوگوں کو اس حجت کا موقع باقی نہ رہے کہ نیکی بدی کی جانچ سے پہلے فقط اپنے علم ازلی پر اللہ تعالیٰ نے ہم کو سزا دی ہے۔ آگے فرمایا کہ یہ جانچ کچھ اس امت کے لوگوں پر ہی منحصر نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو امتیں گذری ہیں ان کا بھی یہی حال تھا مثلا فوعون کے ہاتھ سے بنی اسرائیل نے جو جو تکلیفیں پائی ہیں وہ قصہ یہ لوگ سن چکے ہیں ان کا بھی یہی حال تھا مثلا فرعون کے ہاتھ سے بنی اسرائیل نے جو جو تکلیفیں پائی ہیں وہ قصہ یہ لوگ سن چکے ہیں نبی اسرائیل کے قصہ کی آیتیں قرآن میں جہاں جہاں ہیں وہ سب گویا ان آیتوں کی تفسیر ہیں پھر فرمایا یہ مشرک لوگ جو غریب مسلمانوں کو ہجرت سے روکتے ہیں اور ان کو مکہ میں بھی امن سے نہیں رہنے دیتے اپنے دل میں یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس ظلم و زیادتی کا بدلیہ نہیں لے سکتا اللہ بڑا صاحب قدرت ہے اور سے بڑھ کر صاحب قوت قوموں کو اس نے ایک دم میں طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا جن کی اجڑی ہوئی بستیاں ملک شام اور یمن کے سفر میں یہ لوگ جو غریب مسلمانوں کو ہجرت سے روکتے ہیں اور ان کو مکہ میں بھی امن سے نہیں رہنے دیتے لیکن اللہ کے کار خانہ میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اس کے آنے پر ان لوگوں کو اس ظلم و زیادتی کی حقیقت کھل جائے گی اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی کے وقت یہ حقیقت کھل گئی جس کا قصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک ؓ کی روایت سے ایک جگہ گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث بھی گذرچ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے ظالم لوگوں کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کو پکڑتا ہے تو بالکل برباد کردیتا ہے اس حدیث کو آیتوں کو تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب تک اللہ کو منظور تھا مشرکین مکہ طرح طرح سرکشی کرتے رہے اور جب بدر کی لڑائی کے وقت ان آیتوں کے وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ نے ان میں کے بڑے بڑے سرکشوں کو پکڑا تو بالکل بر باد کردیا۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 141 جلد 5۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ ص 15 کتاب الایمان ) (3 ؎ حکمت فتح الباری ص 231 ج 3 میں بیان کی گئی ہے حدیث کے الفاظ نہیں (ع ‘ ح۔ ) (4 ؎) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سب سے پہلے کپڑے پہنائے جانے کی حدیث کے لیے دیکھئے مشکوٰۃ ص 483 باب الحشر )
Top