Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 44
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے کچھ شک نہیں کہ ایمان والوں کے لئے اس میں نشانی ہے
44 تا 49۔ ان آیتوں میں اپنی قدرت کا حال بیان فرمایا ہے کہ اس نے آسمان اور زمین کو بےفائدہ نہیں پیدا کیا بلکہ اس واسطے پیدا کیا کہ ہر ایک شخص کو اس کے عمل کا بدلہ ملے برے کو برا اچھے کو اچھا اس آیت میں ایمان والوں کو ہدایت ہے کہ اللہ اکیلا جہاں کا پیدا کرنے والا ہے وہی اکیلا پوجنے کے قابل ہے اور منکرین حشر کو یہ تنبیہ ہے کہ یہ لوگ خود تو دنیا میں کو کام کرتے ہیں اس میں کوئی نہ کوئی فائدہ ان کو مد نظر ہوتا ہے مثلا کھیتی میں پیدا وار کا فائدہ تجارت میں نقدی کا فائدہ ان کا مقصود ہوتا ہے پھر یہ نادان اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے انتظام کو بےفائدہ کیوں ٹھہراتے ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد اگر جزاو سزانہ ہو تو دنیا کا پیدا کرنا بالکل بےٹھکانے ٹھہرتا ہے جو اللہ کی شان سے بہت بعید ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلعم کو قرآن شریف کے پڑھنے کا اور نماز کے قائم کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ نماز ایسی چیز ہے کہ سب بری باتوں سے روکتی ہے اور خدا کی یاد سب سے بڑی ہے معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابوہریرہ ؓ کی 1 ؎ حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ کے روبرو ایک چور شخص کے نمازی ہونیکا ذکر آیا آپ نے فرمایا نماز کی برکت سے اس کی چوری کی عادت چھوٹ جائے گی یہ حدیث ان الصلوت تنھیٰ عن الفحشاء والمنکو کی گویا تفسیر ہے عبداللہ ابن عون ثقہ تایغیوں میں ہیں صحح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے۔ کہ یہ شخص یاد الٰہی میں مصروف رہتا ہے تو تعریف کے طور پر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کا ذکر فرشتوں کے روبرو کرتا ہے یہ حدیث ولذکر اللہ اکبر کی یہ گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ وفا دار غلام تو اپنے آقا کو یاد کیا ہی کرتا ہے لیکن آقا کا غلام کو تعریف کے طور پر یاد کرنا بڑی بات ہے معتبر سند سے ابوداؤد اور نسائی کی ابوامامہ ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ بغیر خالص نیت کے کوئی عمل بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہے یہ حدیث واللہ یعلم ماتصنعون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خالص نیت کے عملوں کی اور دنیا کے دکھاوے کی عملوں کی سب خبر ہے اور دنیا کے دکھاوے کے عمل اس کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہیں شروع آیت میں اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن اور نماز کا حکم اپنے رسول کو فرمایا اور پھر واللہ یعلم ماتصنعون فرما کر امت کو اس حکم میں شامل کردیا تاکہ معلوم ہو کہ اس حکم کی تعمیل سب پر یکساں ہے تلاوے قرآن کے وقت نماز روزہ حج زکوٰۃ سب باتوں کا حکم اگرچہ معلوم ہوسکتا ہے لیکن نماز کی تاکید شریعت میں بہت ہے اس لیے نماز کا ذکر خاص طور پر فرمایا پھر فرمایا اہل کتاب سے زیادہ نہ جھگڑو بلکہ ان سے اتنا ہی کہہ دو کہ قرآن شریف پر بھی ہم کو یقین ہے کہ وہ کلام الٰہی ہے اور پہلی کتابوں پر بھی کیونکہ ہمارا تمہارا معبود ایک ہے اور اسی کی سب کتابیں ہیں جس کی پیروی ہم پر لازم ہے مگر ان کتابوں میں ردو بدل ہوگیا ہے اس کی پیروی کا ہم کو حکم نہیں ہے قرآن شریف نے وہ ردو بدل کی باتیں ہم کو بتلادی ہیں اس لیے ہم اتنی ہی بات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تم پر اترا ہے اس پر ہمارا ایمان ہے ردو بدل کے شبہ کے سبب سے نہ تمہاری کسی خالص بات کو ہم مان سکتے ہیں نہ تمہاری ساری کتاب کو جھٹلا سکتے ہیں صحیح بخاری میں اہل کتاب کے باب میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول ہے اس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا الذین ظلمون منھم اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اہل کتاب تم پر زیادتی کریں تو تم بھی ان سے ایسا ہی پیش آؤ مدینہ کے گردونواح میں یہود کے قبیلے نبی نضیر اور نبی قریظہ نے اہل اسلام کے مقابلہ اور مشرکین کی مدد پر کمر باندھی اس لیے آنحضرت ﷺ نے بنی نضیر کو تو جلا وطن کیا اور بنی قریظہ قتل کئے گئے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں یہ دونوں قصے مفصل ہیں جن قصوں کو الا الذین ظلموا کی تفسیر کہا جاسکتا ہے اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے جس طرح ہم نے پہلے انبیاء پر کتابیں نازل کیں اسی طرح تم پر بھی قرآن نازل کیا جس کو بعضے اہل کتاب اور بعضے اہل مکہ اللہ کا کلام مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے وہ حق بات کے جان بوجھ کر منکر ہیں کیونکہ قرآن کے نازل ہونے سے پہلے ابنے رسول اللہ کے جب کچھ تم لکھے پڑھے نہیں تھے تو ان مشرکوں کے دل جانتے ہیں کہ ان پڑھ آدمی ایسی کتاب اپنے دل سے ہرگز نہیں بنا سکتا جب کا بنانا پڑھے لکھے لوگوں کی قدرت سے بھی باہر سے اور پہلی کتابوں میں تمہارے اوصاف ایسے تفصیل سے ہیں کہ اہل کتاب کے دل بھی خوب جانتے ہیں کہ تم اللہ کے رسول ہو اور قرآن کلام الٰہی ہے۔ (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 415 ج 3‘ ) (2 ؎ مشکوٰۃ ص 196 باب ذکر اللہ والتقرب الیہ۔ )
Top