Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 5
مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
مَنْ : جو كَانَ يَرْجُوْا : وہ امید رکھتا ہے لِقَآءَ اللّٰهِ : اللہ سے ملاقات کی فَاِنَّ : تو بیشک اَجَلَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ لَاٰتٍ : ضرور آنے والا وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جو شخص خدا کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو خدا کا (مقرر کیا ہوا) وقت ضرور آنے والا ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے
5 تا 7۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جس کو آخرت میں خدا تعالیٰ سے ملنے کی امید اور اپنے اچھے کاموں کے ثواب پانے کا بھروسہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے امید کو پورا کرے گا اس واسطے کہ وہ دعا کا سننے والا اور تمام عملوں کا دیکھنے والا ہے پھر فرمایا جو محنت کر کے اچھے عمل کرے وہ اپنے ہی واسطے کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بندوں کے نیک عملوں سے بےپرواہ کسی کا نیک اور پرہیز گار ہونا خدا کی بادشاہت میں کچھ رونق نہیں بڑھاتا اس پر بھی وہ ایمان والوں کو عمدہ جزادے گا اور ان کو برائیوں کو ان کے ایمان اور نیک عمل کی برکت سے دور کر دے گا اور اچھے سے اچھا ان کے عملوں کا بدلہ دے گا ایک نیکی کا دس گنا اور سات سونے کی تک اور بعضے زیادہ خالص نیتوں کے عملوں کا اس سے بھی بڑہ کر ثواب دے گا اور بڑائی کی سزا بقدر برائی کے دے گا بلکہ معاف کردے گا سورة یونس کی آیت ان الذین لایرجون لقاؤ نا ورضوا بالحیواۃ الدنیا آیت من کان یرجو لقآء للہ کی گویا تفسیر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ان اہل مکہ میں سے جو لوگ حشر کے منکر ہیں ان کو تو حشر کے دن اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے اور حساب کتاب کی بالکل توقع نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے تو اپنا سارا دارومدار دنیا کی زندگی کو قرار دیا ہے ہاں جو لوگ ان میں سے راہ راست پر آگئے ہیں اور دنیا کے زندگی میں عقبیٰ کے فکر سے غافل نہیں ہیں اور جزاو سزا کے لیے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑے ہونے کی اور نیک کاموں کے ثواب کی ان کو توقع ہے ان کی توقع کو اللہ تعالیٰ پورا کرے گا صحیح بخاری میں عبادہ ؓ بن الصامت سے روایت 1 ؎ ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو خص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق دل میں رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کو ایسے نیک کاموں کو توفیق دیتا ہے کہ وہ اچھی حالت سے اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہو۔ اور یہ حشر کے منکر لوگ اللہ تعالیٰ کے ملنے کا شوق دل میں نہیں رکھتے اس لیے اللہ تعالیٰ بھی خوشی سے ان کو اپنے روبر وبلانا نہیں چاہتا حضرت عائشہ ؓ نے جب یہ حدیث سنی تو اللہ تعالیٰ سے ملنے کا مطلب موت کو خیال کر کے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ موت کا شوق تو کوئی شخص اپنے دل میں نہیں رکھتا آپ نے فرمایا مرنے والے شخص کو آخری وقت پر اللہ کے فرشتے جزاو سزا کی اطلاع دیتے ہیں جس سے نیک لوگوں کو جزا کا حال سن کر اللہ تعالیٰ کے روبرو جانے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے حدیث میں اس شوق کا ذکر ہے موت کے شوق کا ذکر نہیں ہے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی توقع کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اگر ساری مخلوقات نیک ہوجاوے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جاوے گا اسی طرح اگر ساری مخلوقات بد ہوجاوے تو اس کی بادشاہی میں سے کچھ گھٹ نہ جاوے گا یہ حدیث ان اللہ غنی عن العالمین گویا تفسیر ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کے اور ایک جمعہ اور رمضان سے دوسرے رمضان تک کے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں نیک عملوں کی برکت سے گناہ کا بوچھ کی حدیث قدسی گزر چکی ہے کہ نیک کام کا اجر دس گنا ثواب سے لے کر سات سو تک اور زیادہ نیک نیتی کی صورت میں اس سے بھی زیادہ ثواب ملے گا یہ حدیث ولنجزنیھم احسن الذی کا نوایعلون کی گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ ص 139 باب تمنی الموت و ذکر 5۔ )
Top