Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 33
وَ اٰیَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَةُ١ۖۚ اَحْیَیْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ یَاْكُلُوْنَ
وَاٰيَةٌ : ایک نشانی لَّهُمُ : ان کے لیے الْاَرْضُ : زمین الْمَيْتَةُ ښ : مردہ اَحْيَيْنٰهَا : ہم نے زندہ کیا اسے وَاَخْرَجْنَا : اور نکالا ہم نے مِنْهَا : اس سے حَبًّا : اناج فَمِنْهُ : پس اس سے يَاْكُلُوْنَ : وہ کھاتے ہیں
اور ایک نشانی ان کیلئے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگایا پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں
33 تا 36۔ اوپر کی آیت انانحن نحی الوتی میں حشر کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اس کی مثال بیان فرمائی کہ ہر سال حشر کا حال سمجھنے کے لیے وہ مردہ زمین کہ جس میں گھانس تک نہیں ہوتی منکریں حشر کے حق میں ایک نشانی ہے کہ جس وقت ہم نے اس پر مینہ برسایا تو وہ ملتی ابھرتی ہے اور ہر قسم کی چیزیں اگاتی ہے گویا بعد مرنے کے جی اٹھتی ہے اس واسطے فرمایا کہ زندہ کیا ہم نے اس کو اور نکالا ہم نے اس سے اناج جو کھاتے ہیں یہ بھی اور ان کے چوپائے بھی پھر فرمایا کہ بنائے ہم نے باغ کھجور اور انگور کے اور بہائے زمین میں چشمے اور ندیاں تاکہ کھائیں اس کے میووں سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اناج کے پیدا کرنے کا احسان مخلوق پر رکھا اس کے بعد میووں کا اور پھلوں کا ذکر کیا۔ کیوں کہ انسان کو بہ نسبت میووں کے اناج کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے اس لیے اناج کا پیدا کرنا ایک بڑی نعمت ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 1 ؎ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے (1 ؎ مشکوۃ ص 481 باب النفح فی الصور) کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس کی تاثیر سے آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی طرح قیامت تک کی سب مردہ مخلوقات کے پتلے اسی طرح تیار ہوجائیں گے جس طرح اب ہر سال کے مینہ کی تاثیر سے ہر طرح کا اناج اور میوہ پیدا ہوجاتا ہے قرآن شریف میں جگہ جگہ حشر گی حالت کے سمجھانے کے لیے حشر کے ذکر کے ساتھ اناج اور میووں کی پیدا وار کا جو ذکر فرمایا گیا ہے اس حدیث سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کس لیے کہ اب جو ہر سال مینہ کی تاثیر سے کام لیا جاتا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے بہت بڑا کام ہے کہ ایک اناج کے دانہ سے ہزاروں دانے اور ایک میوہ کی گٹھلی سے ہزاروں میوے پیدا کئے جاتے ہیں حشر کے دن جو مینہ برسے گا اس کی تاثیر سے فقط اتنا ہی کام لیا جائے گا کہ ایک مردہ کی مٹی سے ایک پتلا تیار کردیا جائے گا پھر اب جس طرح ماں کے پیٹ میں پتلا تیار ہوجاتا ہے اور اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اسی طرح حشر کے دن سب پتلوں میں روحیں پھونک دی جاویں گی۔ منکرین حشر کی یہ بڑی نادانی ہے کہ وہ باوجود سمجھانے کے کھیتی کی حالت سے حشر کی حالت کو نہیں سمجھتے ‘ جو فلسفی لوگ جسمانی حشر کے منکر ہیں انہوں نے بھی اس مثال کے سمجھنے میں غلطی کی ہے بعضے میوے ایسے قدرتی ہوتے ہیں کہ انسان کا کچھ دخل ان میں گٹھلی کے بونے یا پانی کے دینے کا نہیں ہوتا حضرت عبداللہ اللہ بن عباس ؓ نے ایسے ہی میووں کو وماعملتہ ایدیھم کی تفسیر قرار دیا ہے اس تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے ہاتھ کے لگائے ہوئے اور پانی دئے ہوئے درختوں کے میوے کھاتے ہیں اور ایسے درختوں کے میوے بھی کھاتے ہیں جو ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے نہیں ہیں اور قدرتی ندیوں کے پانی سے ان درختوں کی پرورش ہوئی ہے ‘ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا یہ قول تفسیر ابراہیم 2 ؎ بن المنذر میں ہے۔ (2 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 263 ج 5) یہ ابراہیم ابن المنذر حاکم اور ابن ماجہ کے رتبہ کے قدیم مفسروں میں ہیں اور ابو حاتم رازی نے ان کو معتبر علماء میں شمار کیا ہے اس لیے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے اسی خیال سے تینوں 1 ؎ ترجموں میں اسی تفسیر کے موافق ترجمہ کیا گیا ہے (1 ؎ شاہ ولی اللہ (رح) (فارسی شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر (اردو ‘ (ع۔ ح) آگے فرمایا جس نے انسان اور ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے وہ اللہ ان ناشکر مشرکوں کے شرک سے پاک اور دور ہے اور مما لایعلمون ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگل اور دریا میں بہت سے ایسے جانور ہیں جن کو لوگ نہیں جانتے۔
Top