Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 54
فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّ لَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
فَالْيَوْمَ : پس آج لَا تُظْلَمُ : نہ ظلم کیا جائے گا نَفْسٌ : کسی شخص شَيْئًا : کچھ وَّلَا تُجْزَوْنَ : اور نہ تم بدلہ پاؤ گے اِلَّا : مگر ۔ بس مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : جو تم کرتے تھے
اس روز کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تم کو بدلا ویسا ہی ملے گا جیسے تم کام کرتے تھے
54 تا 64۔ اوپر دوسرے صور کی آواز سن کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوجانے کا ذکر تھا اب اس کے نتیجے کا ذکر فرمایا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا ہے اسی واسطے فرمایا کہ قیامت کے دن کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے ثواب میں کمی نہ ہوگی اور بدی کی سزا جرم کی حیثیت سے بڑھ کر نہ دی جاویگی اب آگے جنتیوں اور دوزخیوں کا ذکر فرمایا کیوں کہ دنیا کا پیدا ہونا اور حشر کا قائم ہونا سب اسی نتیجہ کے لیے تھا۔ جنتیوں کے حال کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اور ان کی بیبیاں طرح طرح کی نعمتوں کے مشغلہ میں لگے ہوئے ہوں گے جنت کے مکانوں اور درختوں کے سایہ کی ٹھنڈک میں چھپر کھٹوں کے اندر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے اور طرح طرح کے میوے اور جس چیز کو ان کا جی چاہے گا وہ سب کچھ وہاں موجود ہوجاوے گا اللہ تعالیٰ کا سلام ان کو پہنچے گا جنتی جب جنت میں جانے لگیں گے تو دوزخیوں کو حکم ہوگا کہ تمہاری ٹکڑی الگ ہوجاوے اور پھر ان کو یوں قائل کیا جائے گا کہ کیا رسولوں کی زبانی تم کو شیطان کی فرمانبرداری سے منع نہیں کیا گیا تھا اس پر بھی ایک بڑی جماعت ناسمجھی سے شیطان کے بہکاوے میں آگئی تو ایسے لوگوں کا ٹھکانہ آج کے دن دوزخ ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جنتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی ہیں وہ دنیا میں نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنی نہ کسی کے دل پر ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رح) سے اور بخاری ترمذی اور مستدرک حاکم میں ابودرداء اور ابوذر ؓ سے جو روایتیں ؎ ہیں (؎ الترغیب والترہیب ص 264۔ 265 ج 4 ) آنحضرت ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا دوزخ کے عذاب کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ میں پورا بیان کردوں تو لوگ ہنسنا چھوڑ کر ہیمشہ روتے رہو اور گھر بار چھوڑ کر جنگل کو نکل جاؤ ‘ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب قرار پایا کہ اہل جنت کی نعمتوں اور اہل دوزخ کے عذابوں کی پوری تفسیر علمائے امت کی طاقت سے باہر ہے۔ سلام قولا من رب رحمیم کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول یہی ہے کہ اہل جنت سے اللہ تعالیٰ سلام علیکم فرمائے گا ابن ماجہ بیہقی وغیرہ میں جابر بن عبداللہ ؓ کی ایک روایت 1 ؎ بھی اس مضمون کی ہے جس سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے اگرچہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی فضل بن عیسیٰ (قاشی ضعیف ہے لیکن یہ حدیث چند طریقوں سے آئی ہے اس لیے بیہقی نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ حدیث معتبر ہے۔
Top