Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے ان (پیغمبر) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایان ہے یہ تو محض نصیحت اور صاف صاف قرآن (پراز حکمت) ہے
69 تا 76۔ اوپر ذکر تھا کہ قیامت کے دن جو گناہ گار اپنے گناہوں سے انکار کریں گے ان کی زبان بند کی جا کر ان کے ہاتھ پاؤں سے گناہوں کا اقرار کرایا جاوے گا اسی مناسبت سے فرمایا کہ جو لوگ سرکشی سے یہ زبان درازی کرتے ہیں کہ قرآن کو شعر اور اللہ کے رسول کو شاعر کہتے ہیں جب ان کی زبان بند کی جاکر ان کے ہاتھ پیروں سے ان کی اس زبان درازی کا اقرار کرایا جاوے گا تو اس وقت ان کو اس جھوٹ کی حقیقت کھل جائے گی کہ اللہ کے رسول کو یہ جھوٹے لوگ شاعر کہتے ہیں حالانکہ اللہ کے رسول ان میں چھوٹے سے بڑے ہوئے ان لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو شعر کہنے کی عادت سے ہمیشہ بچایا کیوں کہ اللہ کے رسولوں کو شاعری زیبا نہیں ہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تو جو چیز رسول کو سکھائی ہے وہ قرآن ہے جس میں عقبیٰ کی بہبودی کی صاف نصیحت ہے تاکہ جو لوگ علم الٰہی میں دوزخ کے قابل نہیں ٹھہرے اور ازلی کفر کے زنگ سے ان کا دل مردہ نہیں ہوا ان کو عذاب آخرت سے ڈرایا جائے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جانے کے قابل۔ اس حدیث سے من کان حیا و یحق القول علی الکافرین کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق جنت میں جانے کے قابل ٹھہر چکے ہیں وہ اس حساب سے زندہ دل ہیں کہ ان کے دل میں قرآن ہے اور وہ راہ راست پر آجاویں گے ہاں علم الٰہی کے موافق جن کا انجام دوزخ ٹھہر چکا ہے وہ مرتے دم تک جس حال پر ہیں اسی حال پر رہیں گے ‘ اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنی بےگنتی نعمتوں میں سے مثال کے طور پر سواری کے گوشت، کھانے اور دودھ پینے اور بالوں اور کھالوں کے کپڑے بنانے کے، چو پائے کے پیدا کرنے کی نعمت کا ذکر فرما کر یہ فرمایا کہ ان لوگوں پر اللہ کے احسانات کا تو یہ حال اور ان کی ناشکری کا یہ حال کہ اللہ کی نعمتوں کو کام میں لا کر پتھر کی مورتوں کو اپنا معبود ٹھہراتے ہیں اس غلط امید کے بھروسہ پر ان پتھر کی مورتوں کو اپنی فوج بنا رکھا ہے کہ جس طرح فوج والے شخص کو فوج سے مدد پہنچتی ہے اسی طرح جن کی یہ مورتیں ہیں وہ مدد کے وقت ان کی کچھ مدد کریں گے حالانکہ خلاف مرضی الٰہی کے اللہ کے کار خانوں میں کسی کو کسی طرح کا مدد کا کچھ اختیار نہیں چناچہ دنیا میں تو مکہ کے قحط کے وقت ان لوگوں نے اس بات کو خوب آزمالیا کہ قحط کو رفع کردینے میں ان کے بتوں نے ان کی کچھ مدد نہیں کی آخرت میں ان کے جھوٹے معبود جس طرح ان لوگوں سے اپنی بیزاری ظاہر کریں گے وہ حال بھی ان کو قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا اوپر کی مثال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی یہ تسکین فرمائی کہ اے رسول اللہ کے جب اللہ کے ساتھ ان لوگوں کا یہ حال ہے جو اس مثال میں بیان کیا گیا تو تم کو یہ لوگ شاعر کہیں تو اس کا تم کچھ خیال نہ کرو ان کی زبانی بدگوئی ان کے ہاتھ پیروں کے برے کام ان کے دلوں کے برے خیال اللہ کو سب معلوم ہیں وقت مقررہ پر اس سب کا بدلہ ان کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گا ‘ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے بدر کی لڑائی کے قوت اس وعدہ کا جو ظہور ہو صحیح بخری ومسلم کی انس بن مالک ؓ کی روایت کے حوالہ سے اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ اللہ کے رسول کے بڑے بڑے مخالف اس لڑائی میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کو اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پالیا۔
Top