Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
لیکن خدا نے جو (کتاب) تم پر نازل کی ہے اسکی نسبت خدا گواہی دیتا ہے کہ اس نے اپنے علم سے نازل کی ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہ تو خدا ہی کافی ہے۔
(166 ۔ 170) ۔ تفسیر ابن جریر، تفسیر خازن وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت سے ان آیتوں کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ یہود لوگ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے ان سے آپ نے فرمایا کہ یہ تو تمہارا جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور قرآن کلام الٰہی ہے پھر تم اس کی صدیق عام لوگوں کے روبرو کیوں نہیں کرتے۔ یہود نے یہ بات سن کر آپ کے رسول ہونے اور قرآن کے اللہ کے کلام ہونے کی گواہی دینے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں 3 اور فرمایا اے رسول اللہ کے اگرچہ ان لوگوں نے تمہارے خلاف گواہی دے کر عام لوگوں کو بہکایا ہے لیکن اللہ اس بات کا گواہ ہے کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارا ہے۔ اس لئے اہل مکہ نہ اس جیسا کلام بنا سکتے ہیں نہ اس میں پہلی کتابوں کی باتوں کو یہ اہل کتاب جھٹلا سکتے ہیں۔ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اور وہاں سے زمین پر سب ملائکہ کے سامنے اس قرآن کا نزول ہوا ہے۔ اس واسطے سب فرشتے گواہی دیں گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ پھر فرمایا ایک سچی گواہی سے یہ جھوٹے لوگ اگر مکر گئے تو اس سے کیا ہوتا ہے اللہ کی گواہی تمہارے رسول اور قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد فرمایا باوجود اس قدر معتبر گواہی کے بھی یہ لوگ قرآن کے منکر اور اللہ نے جو قرآن میں اپنی رضا مندی کا راستہ ان کو بتلایا ہے اس سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی بڑی گمراہی ہے۔ پھر فرمایا کہ ایک توبہ لوگ خود گمراہ ہیں۔ دوسرے انہوں نے یہ ظلم کیا کہ اور عام لوگوں کے دل میں بھی طرح طرح کے شک ڈال کر ان کو بھی گمراہ کیا ایسے لوگ اللہ کے علم میں جہنمی ٹھہر چکے ہیں اس واسطے سوائے جہنم کے راستے کے ان کے لئے اور کوئی راستہ نہیں اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہ کر طرح طرح کے عذاب کا بھگتنا اور پھر جیتے رہنا انسان کی سمجھ کے آگے کچھ مشکل نہیں۔ اس کی قدرت کے آگے بڑے بڑے سب مشکل کام آسان ہیں۔ یہاں مختصر طور پر یہ فرمایا کہ یہ اللہ پر آسان ہے لیکن اور آیتوں میں انسان کی سمجھ کے موافق اس کی تفصیل بھی فرما دی ہے۔ چناچہ اس سورت میں اوپرگزر چکا ہے 1 کہ دوزخیوں کی جوں جوں کھال جلتی جائے گی اس کے معاوضہ میں فورا دوسری کھال بدل دی جائے گی اور سورة فاطر میں آئے گا لا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا (35۔ 36) جس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخیوں کی قبض روح کا حکم نہ ہوگا اس لئے باوجود طرح طرح کے عذاب کے ان کی جان نہ نکلے گی۔ اوپر اللہ اور اللہ کے فرشتوں کی گواہی سے آنحضرت ﷺ کے رسول ہونے اور قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کا ذکر فرمایا تھا۔ یہاں اہل مکہ اہل کتاب سب کو فرمایا کہ اے لوگو یہ اللہ کے رسول اللہ کا سچا کلام لے کر تمہارے پاس آئے ہیں اگر تم اس کو مان لو گے تو اس میں تمہارا بھلا ہے ورنہ اللہ کو تمہارے ایمان تمہاری عبادت کی کچھ پرواہ نہیں زمین و آسمان سب جگہ میں اللہ کی حکومت ہے اور آسمان پر تم سے زیادہ عبادت کرنے والے اللہ کے فرشتے موجود صحیح مسلم ‘ ترمذی وغیرہ میں ابوذر ؓ سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سارے جن و انس ایمان دار اور نیک ہوجائیں تو اس سے اللہ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جائے گا۔ اور اگر یہ سب بد ہوجائیں تو اس کی بادشاہت میں سے کچھ گھٹ نہ جائے گا 2 حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ عَلِیْمًا کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کو سب کے نیک و بد کام ہر ایک معلوم ہیں ایک دن ان سب کی جزا و سزا ہونے والی ہے حَکِیْمًا کا یہ مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ آخری شریعت وقت کی مناسبت سے اپنی حکمت کے موافق بھیجی ہے۔
Top