Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
اوپر کی آیت میں سوتیلی ماں سے نکاح کے دستور کو منع فرما کر اسی سلسلہ میں دوسری عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے نکاح حرام ہے آدمی کی پیدائش جس خاندان میں ہو اس میں سے سات عورتیں اس شخص پر حرام ہیں وہ عورتیں یہ ہیں۔ ماں 1۔ بہن 2۔ بیٹی 3۔ پھوپھی 4۔ بھتیجی 6۔ بھانجی 7۔ ان کو محرمات نسبی کہتے ہیں دودھ پلانے سے بھی عورتیں اس رشتہ کی ہوں وہ ساتوں حرام ہیں آیت میں فقط دودھ کی ماں اور بہن کا ذکر فرما کر باقی کو نسب کے قیاس پر اس سبب سے چھوڑدیا ہے کہ دودھ کا رشتہ بھی پیدائش کے رشتہ کی ایک شاخ ہے وہاں خون آدمی کے بدن کا جز تو یہاں دودھ بن کرو ہی بات پیدا ہوگئی ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ ؓ سے بصراحت روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دودھ پلانے سے بھی ان دودھ کے رشتہ داروں سے نکاح حرام ہوجاتا ہے جن رشتہ داروں سے پیدائش کے سبب سے نکاح ہے 1۔ زید کے دودھ کی بہن وہ ہے جس کو زید نے زید یا اپنے اگلے پچھلے کسی بچہ کے ساتھ ایک لڑکی کو دودھ پلایا ہے۔ یہ لڑکی زید پر بوجہ دودھ کے بہن ہونے کے اور زید کے باپ پر بوجہ دودھ کی بیٹی ہونے کے حرام ہے اور یہ نسب اور دودھ کے رشتہ کی عورتیں ہمیشہ کے لئے حرام ہیں۔ بیاہ شادی کے سبب سے۔ ساس اور سوتیلی بیٹی کے حرام ہونے کا ذکر اس آیت میں ہے اور سو تیلی ماں کا ذکر اوپر کی آیت میں گذرا۔ سوتیلی بیٹی کے حرام ہونے میں یہ شرط بھی ہے کہ اس کی ماں سے اس سوتیلے باپ نے صحبت بھی کی ہو۔
Top