Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو (اگلے لوگوں کے طریقے بتائے) اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
(26 ۔ 27) ۔ اوپر حرام حلال کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا اللہ چاہتا ہے کہ تم کو اپنے دین کی جائز ناجائز باتیں اچھی طرح سمجھا دے تاکہ مثلاً ماں، بہن، بیٹی وغیرہ کے حرام جاننے کا تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا طریقہ ایک ہوجائے اور اللہ نے اپنے وسیع علم سے بندوں کی ہر وقت کی مصلحت کو معلوم کر کے اپنی حکمت سے جو احکام نازل فرمائے ہیں ان کا عمل تم میں آسانی سے جاری ہوجائے اور اللہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ان احکام کی تعمیل میں تم سے کوتاہی ہو اور اس کوتاہی پر نادم ہو کر اللہ کی جانب میں تم توبہ کرو۔ تو وہ تمہاری قبول کرے گا۔ لیکن جن لوگوں کی قسمت میں اللہ کے دین کی پابندی نہیں لکھی گئی وہ خود بھی حرام حلال کے پابند نہیں بلکہ اپنی خواہش کے پابند ہیں اور تم کو بھی حق سے بچلانا اور اپنے راستہ پر چلانا چاہتے ہیں اسی طرح مثلاً بدرکار لوگ خود بھی بدکار ہیں اور جو ان کی ذیل کا ہو اس سے خوش ہیں اور جو ان کی ذیل میں نہ ہو اس سے کھٹکتے ہیں اسی طرح مثلاً آتش پرست بہن، بھانجی، بھتیجی کو حلال جانتے ہیں اور اوروں کے لئے بھی اسی طریقہ کو اچھا سمجھتے ہیں پھر فرمایا کہ انسان کی پیدائش ایک ضعیف چیز پانی کے قطرہ سے ہے سخت احکام کا تحمل اس سے نہیں ہوسکتا اس واسطے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتا ہے کہ دین کے احکام انسان کی حالت کے موافق نرم ہوں جس طرح مثلاً بےمقدور آدمی کے لئے۔ اس نے لونڈی سے نکاح کرنا جائز ٹھہراکر بےمقدور شخص کی سختی کو رفع کردیا صحیح بخاری و مسلم میں سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایسے شخص پر بڑا وبال پڑے گا جس کے بلا ضرورت مسئلے پوچھنے سے کسی مباح چیز کے حرام ہوجانے کا حکم اللہ تعالیٰ کی بارہ گاہ الٰہی سے نازل ہوجائے گا 1۔ اس باب میں اور بھی صحیح روایتیں ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ جب انسان کی حالت کے لحاظ سے اللہ اور اللہ کے رسول کی مصلحت اس میں ہے کہ دین میں جہاں تک ہو آسانی ہو تاکہ احکام دین کی پابندی انسان پر شاق نہ ہو تو آدمی کو چاہیے کہ پہلی امتوں کے بعض لوگوں کی طرح کوئی ایسی سخت عبادت اپنے پیچھے نہ لگاوے جس کا نباہنا مشکل ہوجائے۔ چناچہ ابو داؤد میں معترب سند سے انس ؓ کی روایت ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پہلی امتوں کے کچھ عبادت خانے جو ویران پڑے ہیں وہ اس بات کا نمونہ ہیں کہ ان لوگوں نے اپنی طاقت سے باہر کچھ سخت عبادتیں اپنے پیچھے لگادیں اور ان عبادتوں کے ادا کرنے کے لئے جنگلوں میں یہ عبادت خانے بنائے آخر سختی کے سبب سے عبادت اور عبادت خانے سب کچھ چھوڑ بیٹھے۔ پھر فرمایا اے لوگو تم کو ایسا نہیں کرنا چاہیے 1۔ غرض اس ارشاد سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا عمل پسند نہیں ہے کہ آج ہو اور کل نہ ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کو تو وہ عمل پسند ہے جس کو آدمی نباہ سکے۔ چناچہ صحیحین 2 کی حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں اس کا ذکر ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ آدمی سے نباہ اس علم کا ہوسکتا ہے جو آسمان ہو ورنہ وہی اہل کتاب کی حالت پیش آئے گی جس کا ذکر ابھی اوپر گذرا۔
Top