Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 44
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا تھا کہ وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستے سے بھٹک جاؤ
(44 ۔ 46) ۔ ابن اسحاق نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ رفاعہ بن زید اور مالک بن و خشم یہودیوں میں دو بڑے سردار تھے وہ طرح طرح کی شرارتیں آنحضرت ﷺ سے کرتے تھے کبھی آپ سے کوئی مسئلہ پوچھتے اور آپ جو جواب دیتے اس کو بدل کر اور طرح پر لوگوں سے بیان کرتے اور کبھی زبان دبا کر دو معنی کلمات آپ کو کہتے مثلاً راعنا کو ان معنوں میں بدلتے جن کا ذکر سورة بقر میں گذرا اور ظاہر میں سمعنا واطعنا کہہ کر چپکے سے کہتے سنا ہم نے اور نہ مانا۔ اور واسمع غیر مسمع سے یہ مطلب نکالتے۔ آپ بہرے ہوجائیں غرض ان دونوں شخصوں اور اس قسم کے شریر النفس جو یہود تھے ان سب کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰنے یہ آیت نازل فرمائی 1۔ اور فرمایا جس تورات سے ان لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت معلوم ہوئی اس تورات میں نبی آخر الزمان کی نبوت کا بھی ذکر ہے۔ مگر ان لوگوں نے ایسی بری سوداگری کی کہ ہدایت کے معاوضہ میں گمراہی خریدی اور کچھ تو اسی دشمنی کے سبب سے کہ ان کے گھرانے میں یہ آخری نبوت کیوں نہ ہوئی۔ اور کچھ کے تھوڑے سے لالچ کے خیال سے انہوں نے تورات کے لفظوں اور بعض جگہ معنوں کو بدلا اور اس دھوکے سے اے مسلمانوں یہ لوگ تم کو بھی نیک راستہ سے بھلانا چاہتے ہیں لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں تم ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرو اس کی مدد تم کو کافی ہے اس کی مدد کے آگے ان کی دشمنی کیا چل سکتی ہے۔ ” اگر وہ کہتے ہم نے سنا اور مانا اور سن اور ہم پر نظر کر تو بہتر ہوتا ان کے حق میں اور درست لیکن لعنت کی ان کو اللہ نے ان کے کفر سے اس لئے ایمان نہیں لاتے مگر کم “۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہود لوگ اگر ان شرارت کے لفظوں کی جگہ یہ سیدھے سیدھے لفظ کہتے تو ان کے لئے دین دنیا میں یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔ دین کی بہتری تو یہ تھی کہ تورات میں نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کا حکم تھا۔ اس کی تعمیل ہو کر ان لوگوں کی عقبیٰ درست ہوجاتی اور دنیا کی بہتری یہ تھی کہ یہ لوگ یہاں کی چٹی سے بچ جاتے اور ان لوگوں کے طرح طرح کے گناہوں کے سبب سے ان پر تنگ دستی جو سورا ہے وہ جاتی رہتی۔ چناچہ سورة مائدہ میں فرمایا { وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتَابَ اٰمَنُوْ وَاتَّقُوْ لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلاَ دَخَلْنَا ھُمْ جَنَّاتِ النَّعِیْم وَلَوْ اَنَّہُمْ قَامُوْا التَّوْرَۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِنْ رَّبِھِمْ لاََ کَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ } (15۔ 66/65) حاصل مطلب ان سورة مائدہ کی آیتوں کا وہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ اگر یہ اہل کتاب تورات اور انجیل کے پابند ہو کر نبی آخر الزمان اور قرآن پر ایمان لاتے تو ان کے لئے دین و دنیا میں بہتر تھا۔ پھر فرمایا کہ یہ ہوتا تو کیونکر ہوتا۔ یہ تو ایسوں کی اولاد اور ان ہی اپنے بڑوں کے ڈھنگ پر ہیں جن پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں خدا کی لعنت اتر چکی ہے۔ یہ پورا قصہ سورة مائدہ میں آئے گا۔ لیکن مسند امام احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ میں جو روایتیں بنی اسرائیل پر لعنت اترنے کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں جب گناہوں کی کثرت ہوگئی اور ان کے علماء جاہل لوگوں کو چھوڑ کر خود بھی ان گنہگاروں کی مجلسوں میں شریک ہونا شروع کردیا۔ تو حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی ان پر اللہ کی لعنت اتری۔ یہ روایت متصل۔ اور مرسل چند طریقوں سے ہے جس سے ایک روایت کو دوسری سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے 1۔ آخر آیت میں فرمایا کہ اس خاندانی پھٹکار کے سبب سے ان میں سے عبد اللہ بن سلام ؓ وغیرہ چند لوگ راہ راست پر آئے باقی سب اسی پھٹکار میں گرفتار رہے۔ اللہ کی لعنت اور پھٹکار کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت نہ ہوگی۔ اگرچہ یہ قصہ یہود کا ہے۔ لیکن اس امت میں بھی جب وہ حالت گناہوں کی کثرت اور علماؤں کی چشم پوشی کی پیش آئے گی تو اسی طرح کے کسی عذاب کے آنے کا خوف ہے چناچہ ترمذی میں حذیفہ ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا اے لوگوں نیک باتوں کی تاکید اور بری باتوں کی ممانعت انجان لوگوں کو کرتے رہو ورنہ جب یہ بات تم میں نہ رہے گی تو کوئی نہ کوئی اللہ کا عذاب آئے گا۔ اور پھر اس عذاب سے بچنے کی دعا کی جائے گی تو کسی کی دعا قبول نہ ہوگی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے 2۔
Top