Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے ایمان والوں ! اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تم سب کو خدا کی طرف لوٹ جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو (دنیا) (میں) کئے تھے آگاہ کریگا اور ان کا بدلہ دے گا
اوپر ذکر تھا کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو باوجود وعظ و نصیحت کے بھی راہ راست پر نہیں آتے اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ جو لوگ اپنی ذات سے حلال و حرام کے پابند ہیں اور اپنے بس کے موافق دوسرے کو وعظ و نصیحت بھی کرتے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کو بد لوگوں کی بدی سے کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا ہاں جو علماء اور نیک لوگ بدکار لوگوں سے میل پیدا کر کے وعظ و نصیحت بالکل چھوڑ بیٹھیں گے ان سے اس بات کی پرستش ہوگی کہ انہوں نے و عظ و نصیحت کے احکام کی تعمیل میں بےپروائی کیوں کی معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی وابن ماجہ میں حذیفہ بن الیمان ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جس بستی کے تمام علماء وعظ و نصیحت کو بالکل چھوڑ دیں گے تو اس بستی کے سب لوگوں پر کوئی آفت دینی یا دنیوی ضرور آوے گی۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خلاف شریعت بات کی اصلاح ایمان کی نشانی ہے مسند امام احمد و سنن اربعہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا قصہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے منبر پر کھڑے ہو کر سب لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ اس آیت کی تفسیر میں وعظ و نصیحت کا حکم بھی شامل ہے یہ معنی آیت کے ہرگز نہیں ہیں کہ ایک بستی کے تمام علماء اپنی ذات سے حلال و حرام کے پابند رہیں اور وعظ و نصیحت کی بالکل پرواہ نہ کریں ترمذی نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اس قصہ کی روایت کو صحیح کہا ہے 3 ؎ حاصل کلام یہ ہے کہ ان صحیح حدیثوں کی بنا پر صحیح تفسیر آیت کی یہی ہے کہ آیت کے ٹکڑے اذاھتدیم کے معنی میں وعظ نصیحت بھی شریک ہے اور مطلب آیت کا وہی ہے جو حضرت ابوبکر ؓ نے منبر پر چڑھ کر لوگوں کو سمجھایا ہے اور سب صحابہ نے اس مطلب کو تسلیم کیا ہے سلف میں سے جن علماء کا قول اس مطلب صدیقی کے بر خلاف ہے ظاہراً انکا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ وعظ و نصیحت فرض کفایہ ہے بستی کے ہر ایک عالم پر اس کی پابندی ضروری نہیں ہے بلکہ بستی کے بعض عالموں کے اس پر عمل کرنے سے باقی عالم بری الذمہ ہوجاویں گے یہ منشا تو مطلب صدیق کے برخلاف نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ آیت کی تفسیر کسی اور ڈھنگ سے کی جاوے گی تو وہ تفسیر ان آیتوں اور حدیث کے برخلاف ٹھہرے گی جن میں وعظ نصحتی کی تاکید ہے انہی وجوہات سے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اور تفسیروں پر اس تفسیر کو ترجیح دی ہے جو مطلب صدیقی کے موافق ہے 1 ؎۔ آخر آیت میں وعظ نصیحت کرنے والوں اور وعظ نصیحت کے نہ ماننے والوں سب کو یہ تنبیہ فرمائی کہ تم سب کو ایک دن اپنے علموں کی جواب دہی اور جزا سزا کے لئے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا اس کا خیال ہر ایک کو رکھنا چاہیے تاکہ عین وقت پر پچھتانا نہ پڑے۔
Top