Ahsan-ut-Tafaseer - At-Talaaq : 8
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا وَ رُسُلِهٖ فَحَاسَبْنٰهَا حِسَابًا شَدِیْدًا١ۙ وَّ عَذَّبْنٰهَا عَذَابًا نُّكْرًا   ۧ
وَكَاَيِّنْ : اور کتنی ہی مِّنْ قَرْيَةٍ : بستیوں میں سے عَتَتْ : انہوں نے سرکشی کی عَنْ اَمْرِ رَبِّهَا : اپنے رب کے حکم سے وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسولوں سے فَحَاسَبْنٰهَا : تو حساب لیا ہم نے اس سے حِسَابًا : حساب شَدِيْدًا : سخت وَّعَذَّبْنٰهَا : اور عذاب دیا ہم نے اس کو عَذَابًا نُّكْرًا : عذاب سخت
اور بہت سی بستیوں (کے رہنے والوں) نے اپنے پروردگار اور اس کے پیغمبروں کے احکام کی سرکشی کی تو ہم نے ان کو سخت حساب میں پکڑ لیا۔ اور ان پر (ایسا) عذاب نازل کیا جو نہ دیکھا تھا نہ سنا۔
8۔ 12۔ اوپر کی آیتوں میں تعمیل طلب چند احکام کا ذکر تھا ان آیتوں میں پچھلی سرکش قوموں کی ہلاکت اور عذاب الٰہی میں پکڑے جانے کا ذکر فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حال کے لوگوں میں سے بھی جو کوئی احکام الٰہی کی تعمیل نہ کرے گا اس کا بھی وہی انجام ہوگا جو پچھلی سرکش قوموں کا ہوا۔ اوپر گزر چکا ہے کہ سب سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں اس لئے ان آیتوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک جو پچھلی قومیں اپنی کم عقلی اور سرکشی کے وبال میں طرح طرح کے دنیا اور عقبیٰ کے عذابوں میں گرفتار ہوگئیں ان کا حال مختصر طور پر ذکر فرما کر حال کے صاحب عقل لوگوں کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں پچھلی قوموں جیسی کم عقلی اور سرکشی سے بچنا اور اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کے کاموں میں کوئی آدمی اگرچہ بڑا ہوشیار ہو لیکن جب وہ دنیا کے عجائبات کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے پہچاننے کی عقل دہریوں کی طرح نہ رکھتا ہو تو وہ بڑا کم عقل ہے کیونکہ ایک تھوڑی سی عقل کا آدمی بھی مثلاً بستی کے باہر جنگل میں پہلی دفعہ میدان دیکھے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس میدان میں ایک خوش قطع مکان بنا ہوا دیکھے تو وہ بغیر کسی معمار کے دیکھنے کے اپنی تھوڑی سی عقل سے ضرور یہ نتیجہ نکالے گا کہ ایسے خوش قطع مکان کا بنانے والا کوئی بڑا کاریگر معمار ہے اب جن لوگوں نے دنیا کے ہزارہا عجائبات کو آنکھوں سے دیکھا کر ان عجائبات کے آثار سے بغیر دیکھے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار نہیں کیا اور اللہ کو نہیں پہچانا بلاشک ان کی عقل میں فتور ہے اسی طرح جس شخص نے اپنی اور اپنی زیست بھر کی راحت و آرام کی چیزوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اپنی عقل سے نہیں نکالا کہ یہ اتنا بڑا انتظام کھیل تماشے کے طور پر نہیں ہے بلکہ جتنا بڑا انتظام ہے اتنا ہی بڑا اس کا کوئی نتیجہ ضرور ہے کیونکہ تجربہ سے دنیا کا کوئی چھوٹا سا کام بھی جب بغیر کسی نتیجہ کے کوئی نہیں کرتا تو پھر دنیا بھر کا پیدا کرنا بغیر کسی نتیجہ کے کیونکر ہوسکتا ہے علاوہ اس کے یہ کم عقلی تو ایسے شخص نے کی سو کی ‘ اوپر سے یہ سرکشی بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی معرفت آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے نیک و بد کی جزا و سزا کو دنیا کی پیدائش کا نتیجہ ایسے شخصوں کو سمجھایا تو سرکشی سے اس فہمائش کو ایسے لوگوں نے نہ مانا اور آخر اپنا دین و دنیا کا نقصان کیا معتبر سند سے شداد بن 1 ؎ اوس کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے بعد کا کچھ سامان کرلے۔ یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفیر ہے عتت عن امر ربھا ورسلہ کا یہ مطلب ہے کہ ان لوگوں نے سرکشی سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی فرمانبرداری نہیں کی۔ عذاباً نکراکا یہ مطلب ہے کہ ان پر ایسا عذاب آیا جو ان کے وہم و گمان سے باہر تھا۔ ایات بینات کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کی آیتوں میں دنیا کے عجائبات پر غور کرکے اس سے اللہ کو پہچاننے کا کام عقل سے لینے کا اور دنیا کے پیدا کرنے کے نتیجہ کا اور اللہ کے رسولوں کی فرمانبرداری کے اجر اور نافرمانی کے وبال کا سب ذکر ہے۔ آگے فرمایا کہ قرآن کی ان مفصل آیتوں کے نازل فرمانے اور رسولوں کے بھیجنے سے مقصود یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے احکام کے ماننے اور نیک کام کرنے کا قصد کرے دنیا میں اللہ تعالیٰ اس کو جہالت سے نکال کر اس کے دل میں نور ہدایت پیدا کرے گا اور عقبیٰ میں اس کو جنت عطا فرمائے گا قد احسن اللہ لہ رزقا کا یہ مطلب ہے کہ جنت میں عام جنتیوں کو اچھی سے اچھی وہ وہ نعمتیں ملیں گی جو یہاں بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں۔ صحیح 2 ؎ بخاری و مسلم کی ابوہریرہ کی حدیث قدسی اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جنت میں نیک لوگوں کے لئے وہ نعمتیں ہیں کہ جو دنیا میں نہ کسی نے آنکھ سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی دل میں ان کا خیال گزرا قد احسن اللہ لہ رزقا کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں معراج کی صحیح حدیثیں گزر چکی ہیں جن 1 ؎ میں سات آسمانوں اور ان کے دروازوں کا اور سدرۃ المنتہیٰ اور آسمانوں کے اور عجائبات کا ذکر ہے۔ اسی طرح سورة النباء میں حدیثیں آئیں گی جن کا حاصل 2 ؎ یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کی کی راہ کا فاصلہ ہے اور اسی قدر ہر ایک آسمان کی موٹائی ہے یہ سب حدیثیں آیت کے ٹکڑے اللہ الذی خلق سبع سموت کی گویا تفسیر ہیں۔ سورة النباء میں یہ صحیح حدیث بھی آئے گی کہ جو شخص 3 ؎ ایک بالشت بھر زمین بھی کسی کو دبائے گا قیامت کے دن ساتوں زمینیں بھی تہ برتہ ہیں ومن الارض مثلھن کی تفسیر میں بعض مفسروں کا یہ قول ہے کہ سات زمینوں سے مطلب ساتوں اقلی میں ہیں لیکن یہ قول اوپر کی صحیح حدیث کے مخالف معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس حدیث کے موافق زمین کے ایک ٹکڑے کا تعلق دوسری زمین سے پایا جاتا ہے جس تعلق کے سبب سے ساتوں زمینوں کے ٹکڑوں کا ایک طوق بنایا جائے گا سات زمینوں کی ساتوں اقلی میں تضیر قرار دینے کی صورت میں یہ تعلق باقی نہیں رہتا علاوہ اس کے سورة النباء میں حدیث آئے گی کہ ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے یہ بھی زمینوں تہ بر تہ ہونے کی حالت میں ہوسکتا ہے کس لئے کہ ایک اقلیم سے دوسری اقلیم تک پانس برس کی راہ کا فاصلہ نہیں ہے پہلی زمین کی مخلوقات کا حال تو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ باقی زمینوں کے حال کی تفسیر میں سلف کا اختلاف ہے۔ مستدرک حاکم تفسیر 4 ؎ ابن جریر ؓ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مثل پہلی زمین کے باقی زمینوں میں بھی تابع شریعت لوگ ہیں اور پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء تک وہاں انبیاء بھی آئے کتابیں بھی اتریں لیکن مستدرک 5 ؎ حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے جو مرفوع روایت ہے وہ اس کے برخلاف ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دوسری زمین میں ہوا ہے اور تیسری میں دوزخ کے ایندھن کے پتھر ہیں اور چوتھی میں اس ایندھن کے لئے گندھک ہے اور پانچویں میں دوزخ کے سانپ اور چھٹی میں دوزخ کے بچھو اور ساتویں میں دوزخ ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کو امام ذہبی اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی روایت کو منذری نے منکر کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان روایتوں کی تائید مشہور روایتوں سے نہیں ہوتی حافظ ابن کثیر نے یہ فیصلہ کیا 1 ؎ ہے کہ آیت میں سات آسمان اور سات زمینوں کی پیدائش کا ذکر ہے اس کا اعتقاد ہر مسلمان کو رکھنا چاہئے اور معراج کی صحیح حدیثوں میں آسمان کے عجائبات کا جس قدر ذکر ہے اس کو اور پہلی زمین میں جو اللہ کی قدرت اور حکمت کے نمونے ہیں ان کو آسمانوں اور پہلی زمین کے حال کی تفسیر سمجھنا چاہئے اور باقی زمینوں کا تفصیلی حال جبکہ کسی ناقابل اعتراض حدیث میں نہیں پایا جاتا تو قابل اعتراض روایتوں کے بھروسے پر اس اشتباہی حال کو آیت کی تفسیر نہ ٹھہرانا چاہئے حافظ ابن کثیر کے قول کے موافق حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کے رسول کے بتانے سے آسمانوں کے اور آنکھوں کے دیکھنے سے پہلی زمین کے جو وچھ عجائبات لوگوں کو معلوم ہوئے ہیں ان پر غور کرکے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے کہ جس نے اپنی قدرت سے یہ سب کچھ پیدا کیا اور اس کا علم بڑا وسیع ہے کہ اس نے دنیا کے پیدا کرنے سے ہزارہا برس پہلے دنیا کا سب انتظام اپنے علم ازلی سے معلوم کرلیا ہے جس کے موافق آسمان سے زمین پر روزانہ احکام نازل ہوتے ہیں ان احکام کے سبب سے دنیا کا ہر طرح کا انتظام چل رہا ہے ان احکام میں شرع کے احکام اور دنیا کے انتظام کے احکام نازل ہوتے ہیں جن احکام کے سبب سے دنیا کا ہر طرح کا انتظام چل رہا ہے ان احکام میں شرع کے احکام اور دنیا کے انتظام کے احکام سب داخل ہیں آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ جب آسمان زمین کا سب انتظام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس انتظام میں کسی کا کچھ دخل نہیں ہے تو پھر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کے طور پر یا ریا کاری کے طور پر دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ بڑے نادان اور ناشکر ہیں اور جب اللہ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ ان نافرمانوں کے عملوں سے ناواقف نہیں ہے وقت مقرہ پر ان کا کیا ان کے سامنے آئے گا جس طرح اللہ کا وعدہ ہے اس کا ظہور بلاشک ہونے والا ہے۔ (1 ؎ جامع ترمذی ابواب صفۃ یوم القیمۃ ص 82 ج 2۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ ص 460 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب المعراج 548 ج 1۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الحدید ص 185 ج 2۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی سبع ارضین الخ ص 453 ج 1۔ ) (4 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 385 ج 4۔ ) (5 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 238 ج 6۔ ) (1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 385 ج 4۔ )
Top