بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
1۔ 4۔ صحیحین میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ان آیتوں میں حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ دونوں کا ذکر ہے جس طرح اب مفسرین میں اختلاف ہے کہ ان آیتوں میں آنحضرت ﷺ کی کون سی بیبیوں کا ذکر ہے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح صحابہ کے زمانہ میں بھی یہ اختلاف جاری تھا اسی واسطے صحیحین 2 ؎ کی روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ عرصہ سے میرا ارادہ تھا کہ حضرت عمر ؓ سے دریافت کروں کہ ان آیتوں میں آنحضرت ﷺ کی کونسی دو بیبیوں کا ذکر ہے لیکن مجھ کو موقع نہیں ملتا تھا آخر حج کے سفر میں مجھ کو موقع ملا اور میں نے اس بات کو حضرت عمر ؓ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ذکر حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کا ہے غرض صحیحین کی روایت میں جب ایک بات ثابت ہوچکی تو پھر مفسروں نے اس بات میں اختلاف جو کیا ہے کہ ان آیتوں میں کونسی دو بیبیوں کا ذکر ہے اب اس اختلاف کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی اسی طرح ان آیتوں کے شان نزول میں علماء مفسرین نے یہ جو اختلاف کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کس چیز سے باز رہنے کی قسم کھائی ہے جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اس اختلاف کا کوئی سبب نہیں ہے کیونکہ دو قصے جو شان نزول کے بیان کئے گئے ہیں وہ دونوں قصہ صحیح ہیں اور دونوں قصوں کا مجموعہ ان آیتوں کی شان نزول کا قصہ ہے شہد کا قصہ تو صحیح بخاری 1 ؎ میں ہے اور حرم کے چھوڑ دینے کا قصہ نسائی 2 ؎ اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے حاکم اور حافظ ابن حجر نے اس قصہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ کبھی چند قصوں کا مجموعہ آیت کی شان نزول ہوا کرتی ہے ان آیتوں کی شان نزول بھی اسی قسم کی ہے سوا ان دونوں قصوں کے اور کسی قصہ کی سند صحیح نہیں ہے شہد کے قصہ کی حدیث حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صحیحین میں جو ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اکثر حضرت زینب بنت حجش کے حجرہ میں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور بارہا حضرت زینب ؓ آنحضرت ﷺ کی خاطر داری کے طور پر شہد آپ ﷺ کے سامنے رکھا کرتی تھیں اور آپ ﷺ وہ شہید چاٹا کرتے تھے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفمہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کا حضرت زینب ؓ کے پاس زیادہ بیٹھنا ناگوار ہوا۔ اس لئے ان دونوں نے آپس میں صلاح کرکے آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ آپ ﷺ منہ سے اوپری بو آتی ہے کیا آپ ﷺ نے بدبو کا وہ گوند کھایا ہے جس کو مغافر کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے مغافر تو نہیں کھایا ‘ ہاں زینب ؓ کا دیا ہوا شہد تو میں نے چاٹا ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے شہد کے نہ کھانے کی قسم کھالی اور حضرت حفصہ ؓ کو منع کیا کہ اس قسم کا ذکر کسی سے نہ کرنا اس ممانعت سے آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اس کا چرچا ہو کر حضرت زینب ؓ کو اس بات کے سننے سے رنج نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ ان کے حجرے میں زیادہ بھنا چھوڑ دیا۔ بعضی روایتوں میں بجائے زینب ؓ کے حفصہ ؓ کا نام ہے اور صفیہ اور سودہ بنت زمعہ کو حضرت عائشہ کا ہم صلاح بیان کیا ہے لیکن یہ کسی راوی کو ناموں کے بیان کرنے میں شبہ پڑگیا صحیح نام وہی ہیں جو اوپر کی روایت میں بیان کئے گئے حرم کے چھوڑ دینے کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ یہ حرم ماریہ قبطیہ بنت شمعون آنحضرت ﷺ کی وہی حرم ہیں جن کو مقوقس والی مصر و اسکندریہ نے آنحضرت ﷺ کے پاس بطور تحفہ بھیجا تھا آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم انہی کے پیٹ سے تھے اس لئے ان کی کنیت ام ابراہیم تھی ایک دن حضرت حفصہ ؓ اپنے والد بزرگوار حضرت عمر ؓ سے ملنے گئی ہوئی تھی انکے پیچھے ان کے حجرے میں ماریہ قبطیہ آنحضرت ﷺ کے پاس آئیں اتنے میں حضرت حفصہ ؓ بھی اپنے باپ سے مل کر واپس آگئیں اور ماریہ قبطیہ کو اپنے حجرے میں آنحضرت ﷺ کے پاس دیکھ کر رنجیدہ ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ نے حفصہ ؓ کی دلداری کے لئے عہد کرلیا کہ اب آئندہ ماریہ قبطیہ سے صحبت کا واسطہ نہ رکھیں گے اور حضرت حفصہ ؓ کو منع کردیا کہ وہ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کریں اس ممانعت سے آپ کی غرض یہ تھی کہ ماریہ قبطیہ اس قصہ کو سن کر رنجیدہ نہ ہوں واللہ غفور رحیم کا یہ مطلب ہے کہ اے نبی ﷺ اللہ کے تم نے اپنی بیبیوں کی خاطر سے اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو چھوڑ دینے میں جو ترک اولیٰ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس کو معاف کردیا۔ صحیح 1 ؎ بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بی بی سے یہ کہہ بیٹھے کہ میں نے تجھ کو اپنے اوپر حرام ٹھہرایا تو یہ قسم ہے قسم کا کفارہ ادا کرکے وہ شخص اپنی بی بی سے میل جول کرسکتا ہے ماریہ قبطیہ سے صحبت کا واسطہ نہ رکھنے کا عہد جو آنحضرت ﷺ نے کرلیا تھا اس کے ذکر کے بعد ان آیتوں میں قسم کے کفارہ کا جو ذکر ہے اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رح) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس مسئلہ کی زیادہ تفصیل بڑی کتابوں میں ہے جس چیز سے باز رہنے پر آدمی قسم کھا بیٹھے اس کے استعمال میں آدمی کو ایک بندش ہوجاتی ہے اس لئے قسم کے کفارہ کو قسم کا کھولنا فرمایا۔ قسم کے کفارہ کی تفسیر سورة مائدہ میں گزر چکی ہے کہ ایک غلام کا آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑا بنا دینا اور اگر ان باتوں کا مقدور نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہر ایک شخص کی حالت کے موافق یہ قسم کا کفارہ ہے۔ واللہ مولکم وھو العلیم الحکیم کا یہ مطلب ہے کہ حرام و حلال ٹھہرانے کا اللہ مالک اور متولی ہے اس سنے اپنے علم ازلی اور حکمت کے موافق جو کچھ حرام و حلال ٹھہرا دیا ہے اس میں کسی انسان کو دخل نہ دینا چاہئے۔ واذ اسر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب کے پاس زیادہ بھنے اور شہد کے پینے کو چھوڑ دینے کا اور ماریہ قبطیہ سے صحبت کا واسطہ نہ رکھنے کا عہد حضرت حفصہ ؓ کے رو برو راز کے طور پر کیا اور ان کو اس کا چرچا کرنے سے منع کردیا فلما نبت بہ کا یہ مطلب ہے کہ حضرت حفصہ ؓ نے اس راز کی بات کو حضرت عائشہ ؓ سے کہہ دیا۔ واظھرہ اللہ علیہ کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حفصہ ؓ کے افشائے راز کا حال وحی کے ذریعہ سے اپنی نبی کو جتلا دیا عرف بعضہ و اعرض عن بعض کا یہ مطلب ہے کہ افشائے راز کا حال معلوم ہوجانے کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے اس افشائے راز کی شکایت کی تو پوری شکایت نہیں کی بلکہ بعض لائق شکایت باتوں کو آپ ﷺ نے حضرت حفصہ کے رو برو نہیں دہرایا۔ بعضی روایتوں میں یہ جو ہے کہ یہ حضرت ابوبکر اور عمر کی خلافت کا ذکر آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے راز کے طور پر بیان کیا تھا جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کردیا ان روایتوں کی سند اعتراض کے قابل ہے اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول کا یہ ایک راز تھا جس کا چرچا صحابہ کے عہد میں بھی نہیں ہوا پھر مابعد کے لوگوں کو اس کی کوئی صحیح روایت کیونکر پہنچ سکتی ہے اتنی بات ضرور ہے کہ یہ دین کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ دین کی کسی بات کو صیغہ راز میں رکھنا نبی کا کام نہیں ہے اب آگے حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کو متنبہ فرمایا کہ ان دونوں نے ہم صلاح ہو کر اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچانے کی ایک بات کی طرف اپنے دل کو مائل کیا اس سے ان کو توبہ و استفغار کرنی چاہئے اور اللہ کے رسول کی مدد میں آئندہ ان کو لگے رہنا چاہئے اگر یہ ایسا نہ کریں گی تو اللہ اور اس کے فرشتے اور نیک اہل ایمان اللہ کے رسول کی مدد کے لئے کافی ہیں اگرچہ اللہ وحدہ لاشریک کی مدد سب کو کافی ہے لیکن یہ دنیا عالم اسباب ہے آسمانی اور زمین ابواب میں مدد کے جو اسباب تھے ان کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے ساتھ فرما دیا تاکہ مدد کے سب طریقے پورے ہوجائیں بعض عیسائی علماء نے اسلام پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ عورتوں کا نکاح میں رکھنا بڑی معیوب بات ہے اور اسی باب میں خاص نبی آخر الزمان ﷺ کی ذات پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نو عورتوں کا آپ ﷺ کے نکاح میں ایک ساتھ ہونا غلبہ خواہش نفسانی کی علامت ہے جو نبوت کی شان کے برخلاف ہے اہل اسلام نے ان اعتراضات کے جو جواب دیثے ہیں ان کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ 1 اہل کتاب اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے ہیں اور پھر حضرت ابراہیم کی سنت اور طریقے کو اپنے اس اعتراض میں گویا معیوب ٹھہراتے ہیں کیونکہ کوئی اہل کتاب اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک ساتھ سارا اور ہاجرہ دو بیبیاں تھیں۔ 2 حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی چار بیبیاں تھیں جن کا کوئی اہل کتاب انکار نہیں کرسکتا تورات کی کتاب التکوین کا 29 واں باب دیکھنا چاہئے۔ 3 حضرت دائود ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کی بیبیوں کی کثرت کا کسی اہل کتاب کو انکار نہیں کیونکہ صحائف مقدسہ میں کے صحیفہ شمویل ثانی کے پانچویں باب میں حضرت دائود کا اور صحیفہ ملوک اول کے گیارہویں باب میں حضرت سلیمان کا یہ ذکر موجود ہے۔ 4 تورات کی کتاب الاستثناء کے اکیسویں باب میں ایک سے زیادہ بیبیوں کے ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کی اجازت موجود ہے اس لئے یہ اعتراض تورات کے برخلاف ہے حالانکہ شریعت موسوی اور شریعت عیسوی دونوں شریعتوں میں تورات واجب العمل ہے۔ 5 جوش جوانی گزر جانے کے بعد 53 برس کی عمر کے قریب نبی آخر الزمان ﷺ نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی مکہ کے قیام کے زمانہ میں پہلے خدیجہ ؓ اور پھر خدیجہ کے انتقال کے بعد سودہ اس طرح 53 برس کی عمر تک آپ ﷺ کے نکاح میں ایک ہی بی بی رہی۔ ہجرت کے بعد جب اہل اسلام کی عورتوں کی کثرت ہوئی اور عورتوں سے خصوصیت رکھنے والے ایسے مسائل مدینہ میں نازل ہوئے جن کی تعلیم اجنبی عورتوں کے ذریعہ سے ممکن نہیں تھی تو اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول نے معلمہ دینی کے طور پر جوش جوانی کا زمانہ گزر جانے کے بعد دینی ضرورت سے زیادہ عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں۔ غرض اس طرح سے زیادہ عورتوں کا نکاح میں رکھنا آپ ﷺ کے نبی ہونے کی پوری دلیل ہے جو کوئی اس کو غلبہ خواہش نفسانی کی علامت بتاتا ہے اس کا قول تاریخی واقعات کے بالکل برخلاف ہے عیسائی علماء کی دیکھا دیکھی بعض آریہ فرقے کے لوگوں نے بھی یہی اعتراض اسلام پر کیا ہے۔ اہل اسلام نے پہلا جواب تو اس اعتراض کا وہی دیا ہے جو طلاق میں گزرا کہ وید جب تک کتاب آسمانی ثابت نہ ہوں آریہ فرقہ کے لوگوں کو کسی آسمانی کتاب پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے پھر فرقے آریہ کے الزام دینے کو یہ جواب بھی دیا ہے کہ پنڈت دیانند کی ستیارتھ پر کاش کے موافق جس طرح دائم المرض مرد کی عورت کو نیوگ کی اجازت ہے یہ ایک طاہر بات ہے کہ آریہ مذہب کے احکام کی خامی اور کوتاہی کے سبب سے نیوگ کی بدکاری آریہ مذہب میں داخل ہوئی ورنہ طلاق کا حکم آریہ مذہب کی کتابوں میں ہوتا تو دائم المرض مرد کی عورت بیمار شوہر سے طلاق حاصل کرکے دوسرا شوہر حاصل کرسکتی تھی اسی طرح دوسری عورت سے شادی کا حکم آریہ مذہب میں ہوتا تو دائم المرض عورت کا شوہر دوسری شادی کر کستا تھا یہ احکام کی خامی اس بات کی گواہ ہے کہ وید کی کتاب آسمانی نہیں کیونکہ آسمان کتاب میں اس طرح کے احکام کی خامی کوئی مخالف ہرگز نہیں بتا سکتا اور یہی احکام کی پختگی قرآن کے کتاب آسمانی کتاب میں اس طرح کے احکام کی خامی کوئی مخالف ہرگز نہیں بتا سکتا اور یہی احکام کی پختگی قرآن کے کتاب آسمانی ہونے کی پوری دلیل ہے نیوگ کی تفصیل سورة طلاق میں گزر چکی ہے۔ (2 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة التحریم 729‘ 730 ج 2 مسلم باب بیان ان تخیرہ امراتہ لایکون طلاقا الخ ص 481 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة التحریم ص 729 ج 2 و صحیح مسلم باب وجوب الکفارۃ علی بن حرم امراتہ الخ ص 478 ج 1۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 386 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب تم تحرم ما احل اللہ لک ص 792 ج و صحیح مسلم باب وجبو الکفارۃ علی من حرم امراتہ الخ ص 478 ج 1۔ )
Top