Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
لِمَ تُحَرِّمُ
: کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں
مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ
: جو حلال کیا اللہ نے
لَكَ
: آپ کے لیے
تَبْتَغِيْ
: آپ چاہتے ہیں
مَرْضَاتَ
: رضامندی
اَزْوَاجِكَ
: اپنی بیویوں کی
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان ہے
اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو ؟ کیا اس سے اپنی بیبیوں کی خوشنودی چاہتے ہو اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
1۔ 4۔ صحیحین میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ان آیتوں میں حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ دونوں کا ذکر ہے جس طرح اب مفسرین میں اختلاف ہے کہ ان آیتوں میں آنحضرت ﷺ کی کون سی بیبیوں کا ذکر ہے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح صحابہ کے زمانہ میں بھی یہ اختلاف جاری تھا اسی واسطے صحیحین 2 ؎ کی روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ عرصہ سے میرا ارادہ تھا کہ حضرت عمر ؓ سے دریافت کروں کہ ان آیتوں میں آنحضرت ﷺ کی کونسی دو بیبیوں کا ذکر ہے لیکن مجھ کو موقع نہیں ملتا تھا آخر حج کے سفر میں مجھ کو موقع ملا اور میں نے اس بات کو حضرت عمر ؓ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ذکر حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کا ہے غرض صحیحین کی روایت میں جب ایک بات ثابت ہوچکی تو پھر مفسروں نے اس بات میں اختلاف جو کیا ہے کہ ان آیتوں میں کونسی دو بیبیوں کا ذکر ہے اب اس اختلاف کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی اسی طرح ان آیتوں کے شان نزول میں علماء مفسرین نے یہ جو اختلاف کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے کس چیز سے باز رہنے کی قسم کھائی ہے جس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اس اختلاف کا کوئی سبب نہیں ہے کیونکہ دو قصے جو شان نزول کے بیان کئے گئے ہیں وہ دونوں قصہ صحیح ہیں اور دونوں قصوں کا مجموعہ ان آیتوں کی شان نزول کا قصہ ہے شہد کا قصہ تو صحیح بخاری 1 ؎ میں ہے اور حرم کے چھوڑ دینے کا قصہ نسائی 2 ؎ اور مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے حاکم اور حافظ ابن حجر نے اس قصہ کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ کبھی چند قصوں کا مجموعہ آیت کی شان نزول ہوا کرتی ہے ان آیتوں کی شان نزول بھی اسی قسم کی ہے سوا ان دونوں قصوں کے اور کسی قصہ کی سند صحیح نہیں ہے شہد کے قصہ کی حدیث حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے صحیحین میں جو ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اکثر حضرت زینب بنت حجش کے حجرہ میں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور بارہا حضرت زینب ؓ آنحضرت ﷺ کی خاطر داری کے طور پر شہد آپ ﷺ کے سامنے رکھا کرتی تھیں اور آپ ﷺ وہ شہید چاٹا کرتے تھے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفمہ ؓ کو آنحضرت ﷺ کا حضرت زینب ؓ کے پاس زیادہ بیٹھنا ناگوار ہوا۔ اس لئے ان دونوں نے آپس میں صلاح کرکے آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ آپ ﷺ منہ سے اوپری بو آتی ہے کیا آپ ﷺ نے بدبو کا وہ گوند کھایا ہے جس کو مغافر کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے مغافر تو نہیں کھایا ‘ ہاں زینب ؓ کا دیا ہوا شہد تو میں نے چاٹا ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے شہد کے نہ کھانے کی قسم کھالی اور حضرت حفصہ ؓ کو منع کیا کہ اس قسم کا ذکر کسی سے نہ کرنا اس ممانعت سے آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اس کا چرچا ہو کر حضرت زینب ؓ کو اس بات کے سننے سے رنج نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ ان کے حجرے میں زیادہ بھنا چھوڑ دیا۔ بعضی روایتوں میں بجائے زینب ؓ کے حفصہ ؓ کا نام ہے اور صفیہ اور سودہ بنت زمعہ کو حضرت عائشہ کا ہم صلاح بیان کیا ہے لیکن یہ کسی راوی کو ناموں کے بیان کرنے میں شبہ پڑگیا صحیح نام وہی ہیں جو اوپر کی روایت میں بیان کئے گئے حرم کے چھوڑ دینے کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ یہ حرم ماریہ قبطیہ بنت شمعون آنحضرت ﷺ کی وہی حرم ہیں جن کو مقوقس والی مصر و اسکندریہ نے آنحضرت ﷺ کے پاس بطور تحفہ بھیجا تھا آنحضرت ﷺ کے صاحبزادے ابراہیم انہی کے پیٹ سے تھے اس لئے ان کی کنیت ام ابراہیم تھی ایک دن حضرت حفصہ ؓ اپنے والد بزرگوار حضرت عمر ؓ سے ملنے گئی ہوئی تھی انکے پیچھے ان کے حجرے میں ماریہ قبطیہ آنحضرت ﷺ کے پاس آئیں اتنے میں حضرت حفصہ ؓ بھی اپنے باپ سے مل کر واپس آگئیں اور ماریہ قبطیہ کو اپنے حجرے میں آنحضرت ﷺ کے پاس دیکھ کر رنجیدہ ہوئیں۔ آنحضرت ﷺ نے حفصہ ؓ کی دلداری کے لئے عہد کرلیا کہ اب آئندہ ماریہ قبطیہ سے صحبت کا واسطہ نہ رکھیں گے اور حضرت حفصہ ؓ کو منع کردیا کہ وہ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کریں اس ممانعت سے آپ کی غرض یہ تھی کہ ماریہ قبطیہ اس قصہ کو سن کر رنجیدہ نہ ہوں واللہ غفور رحیم کا یہ مطلب ہے کہ اے نبی ﷺ اللہ کے تم نے اپنی بیبیوں کی خاطر سے اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو چھوڑ دینے میں جو ترک اولیٰ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اس کو معاف کردیا۔ صحیح 1 ؎ بخاری ومسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بی بی سے یہ کہہ بیٹھے کہ میں نے تجھ کو اپنے اوپر حرام ٹھہرایا تو یہ قسم ہے قسم کا کفارہ ادا کرکے وہ شخص اپنی بی بی سے میل جول کرسکتا ہے ماریہ قبطیہ سے صحبت کا واسطہ نہ رکھنے کا عہد جو آنحضرت ﷺ نے کرلیا تھا اس کے ذکر کے بعد ان آیتوں میں قسم کے کفارہ کا جو ذکر ہے اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رح) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس مسئلہ کی زیادہ تفصیل بڑی کتابوں میں ہے جس چیز سے باز رہنے پر آدمی قسم کھا بیٹھے اس کے استعمال میں آدمی کو ایک بندش ہوجاتی ہے اس لئے قسم کے کفارہ کو قسم کا کھولنا فرمایا۔ قسم کے کفارہ کی تفسیر سورة مائدہ میں گزر چکی ہے کہ ایک غلام کا آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑا بنا دینا اور اگر ان باتوں کا مقدور نہ ہو تو تین روزے رکھنا ہر ایک شخص کی حالت کے موافق یہ قسم کا کفارہ ہے۔ واللہ مولکم وھو العلیم الحکیم کا یہ مطلب ہے کہ حرام و حلال ٹھہرانے کا اللہ مالک اور متولی ہے اس سنے اپنے علم ازلی اور حکمت کے موافق جو کچھ حرام و حلال ٹھہرا دیا ہے اس میں کسی انسان کو دخل نہ دینا چاہئے۔ واذ اسر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب کے پاس زیادہ بھنے اور شہد کے پینے کو چھوڑ دینے کا اور ماریہ قبطیہ سے صحبت کا واسطہ نہ رکھنے کا عہد حضرت حفصہ ؓ کے رو برو راز کے طور پر کیا اور ان کو اس کا چرچا کرنے سے منع کردیا فلما نبت بہ کا یہ مطلب ہے کہ حضرت حفصہ ؓ نے اس راز کی بات کو حضرت عائشہ ؓ سے کہہ دیا۔ واظھرہ اللہ علیہ کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حفصہ ؓ کے افشائے راز کا حال وحی کے ذریعہ سے اپنی نبی کو جتلا دیا عرف بعضہ و اعرض عن بعض کا یہ مطلب ہے کہ افشائے راز کا حال معلوم ہوجانے کے بعد جب آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے اس افشائے راز کی شکایت کی تو پوری شکایت نہیں کی بلکہ بعض لائق شکایت باتوں کو آپ ﷺ نے حضرت حفصہ کے رو برو نہیں دہرایا۔ بعضی روایتوں میں یہ جو ہے کہ یہ حضرت ابوبکر اور عمر کی خلافت کا ذکر آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہ ؓ سے راز کے طور پر بیان کیا تھا جس کا ذکر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کردیا ان روایتوں کی سند اعتراض کے قابل ہے اصل بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول کا یہ ایک راز تھا جس کا چرچا صحابہ کے عہد میں بھی نہیں ہوا پھر مابعد کے لوگوں کو اس کی کوئی صحیح روایت کیونکر پہنچ سکتی ہے اتنی بات ضرور ہے کہ یہ دین کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ دین کی کسی بات کو صیغہ راز میں رکھنا نبی کا کام نہیں ہے اب آگے حضرت عائشہ ؓ اور حفصہ ؓ کو متنبہ فرمایا کہ ان دونوں نے ہم صلاح ہو کر اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچانے کی ایک بات کی طرف اپنے دل کو مائل کیا اس سے ان کو توبہ و استفغار کرنی چاہئے اور اللہ کے رسول کی مدد میں آئندہ ان کو لگے رہنا چاہئے اگر یہ ایسا نہ کریں گی تو اللہ اور اس کے فرشتے اور نیک اہل ایمان اللہ کے رسول کی مدد کے لئے کافی ہیں اگرچہ اللہ وحدہ لاشریک کی مدد سب کو کافی ہے لیکن یہ دنیا عالم اسباب ہے آسمانی اور زمین ابواب میں مدد کے جو اسباب تھے ان کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے ساتھ فرما دیا تاکہ مدد کے سب طریقے پورے ہوجائیں بعض عیسائی علماء نے اسلام پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ عورتوں کا نکاح میں رکھنا بڑی معیوب بات ہے اور اسی باب میں خاص نبی آخر الزمان ﷺ کی ذات پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نو عورتوں کا آپ ﷺ کے نکاح میں ایک ساتھ ہونا غلبہ خواہش نفسانی کی علامت ہے جو نبوت کی شان کے برخلاف ہے اہل اسلام نے ان اعتراضات کے جو جواب دیثے ہیں ان کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔ 1 اہل کتاب اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے ہیں اور پھر حضرت ابراہیم کی سنت اور طریقے کو اپنے اس اعتراض میں گویا معیوب ٹھہراتے ہیں کیونکہ کوئی اہل کتاب اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک ساتھ سارا اور ہاجرہ دو بیبیاں تھیں۔ 2 حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی چار بیبیاں تھیں جن کا کوئی اہل کتاب انکار نہیں کرسکتا تورات کی کتاب التکوین کا 29 واں باب دیکھنا چاہئے۔ 3 حضرت دائود ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کی بیبیوں کی کثرت کا کسی اہل کتاب کو انکار نہیں کیونکہ صحائف مقدسہ میں کے صحیفہ شمویل ثانی کے پانچویں باب میں حضرت دائود کا اور صحیفہ ملوک اول کے گیارہویں باب میں حضرت سلیمان کا یہ ذکر موجود ہے۔ 4 تورات کی کتاب الاستثناء کے اکیسویں باب میں ایک سے زیادہ بیبیوں کے ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کی اجازت موجود ہے اس لئے یہ اعتراض تورات کے برخلاف ہے حالانکہ شریعت موسوی اور شریعت عیسوی دونوں شریعتوں میں تورات واجب العمل ہے۔ 5 جوش جوانی گزر جانے کے بعد 53 برس کی عمر کے قریب نبی آخر الزمان ﷺ نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی مکہ کے قیام کے زمانہ میں پہلے خدیجہ ؓ اور پھر خدیجہ کے انتقال کے بعد سودہ اس طرح 53 برس کی عمر تک آپ ﷺ کے نکاح میں ایک ہی بی بی رہی۔ ہجرت کے بعد جب اہل اسلام کی عورتوں کی کثرت ہوئی اور عورتوں سے خصوصیت رکھنے والے ایسے مسائل مدینہ میں نازل ہوئے جن کی تعلیم اجنبی عورتوں کے ذریعہ سے ممکن نہیں تھی تو اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول نے معلمہ دینی کے طور پر جوش جوانی کا زمانہ گزر جانے کے بعد دینی ضرورت سے زیادہ عورتیں اپنے نکاح میں رکھیں۔ غرض اس طرح سے زیادہ عورتوں کا نکاح میں رکھنا آپ ﷺ کے نبی ہونے کی پوری دلیل ہے جو کوئی اس کو غلبہ خواہش نفسانی کی علامت بتاتا ہے اس کا قول تاریخی واقعات کے بالکل برخلاف ہے عیسائی علماء کی دیکھا دیکھی بعض آریہ فرقے کے لوگوں نے بھی یہی اعتراض اسلام پر کیا ہے۔ اہل اسلام نے پہلا جواب تو اس اعتراض کا وہی دیا ہے جو طلاق میں گزرا کہ وید جب تک کتاب آسمانی ثابت نہ ہوں آریہ فرقہ کے لوگوں کو کسی آسمانی کتاب پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے پھر فرقے آریہ کے الزام دینے کو یہ جواب بھی دیا ہے کہ پنڈت دیانند کی ستیارتھ پر کاش کے موافق جس طرح دائم المرض مرد کی عورت کو نیوگ کی اجازت ہے یہ ایک طاہر بات ہے کہ آریہ مذہب کے احکام کی خامی اور کوتاہی کے سبب سے نیوگ کی بدکاری آریہ مذہب میں داخل ہوئی ورنہ طلاق کا حکم آریہ مذہب کی کتابوں میں ہوتا تو دائم المرض مرد کی عورت بیمار شوہر سے طلاق حاصل کرکے دوسرا شوہر حاصل کرسکتی تھی اسی طرح دوسری عورت سے شادی کا حکم آریہ مذہب میں ہوتا تو دائم المرض عورت کا شوہر دوسری شادی کر کستا تھا یہ احکام کی خامی اس بات کی گواہ ہے کہ وید کی کتاب آسمانی نہیں کیونکہ آسمان کتاب میں اس طرح کے احکام کی خامی کوئی مخالف ہرگز نہیں بتا سکتا اور یہی احکام کی پختگی قرآن کے کتاب آسمانی کتاب میں اس طرح کے احکام کی خامی کوئی مخالف ہرگز نہیں بتا سکتا اور یہی احکام کی پختگی قرآن کے کتاب آسمانی ہونے کی پوری دلیل ہے نیوگ کی تفصیل سورة طلاق میں گزر چکی ہے۔ (2 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة التحریم 729‘ 730 ج 2 مسلم باب بیان ان تخیرہ امراتہ لایکون طلاقا الخ ص 481 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری تفسیر سورة التحریم ص 729 ج 2 و صحیح مسلم باب وجوب الکفارۃ علی بن حرم امراتہ الخ ص 478 ج 1۔ ) (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 386 ج 4۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب تم تحرم ما احل اللہ لک ص 792 ج و صحیح مسلم باب وجبو الکفارۃ علی من حرم امراتہ الخ ص 478 ج 1۔ )
Top