Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 12
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰى لِمَا لَبِثُوْۤا اَمَدًا۠   ۧ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنٰهُمْ : ہم نے انہیں اٹھایا لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم دیکھیں اَيُّ : کون۔ کس الْحِزْبَيْنِ : دونوں گروہ اَحْصٰى : خوب یاد رکھا لِمَا لَبِثُوْٓا : کتنی دیر رہے اَمَدًا : مدت
پھر ہم نے انھیں اٹھایا، تاکہ ہم معلوم کریں دونوں گروہوں میں سے کون وہ مدت زیادہ یاد رکھنے والا ہے جو وہ ٹھہرے۔
ثُمَّ بَعَثْنٰهُمْ لِنَعْلَمَ اَيُّ الْحِزْبَيْن۔۔ : ”بَعَثَ“ کا معنی کسی ساکن چیز کو حرکت میں لانا ہے۔ یہ لفظ مردہ کو زندہ کرنے اور سوئے ہوئے کو جگانے کے لیے آتا ہے، یعنی پھر ہم نے انھیں اٹھایا، تاکہ ہم معلوم کریں کہ ان سونے والوں کے دو گروہوں میں سے کون سا گروہ ہے جو اپنے وہاں ٹھہرنے کی مدت کو زیادہ یاد رکھنے والا ہے۔ یہ ترجمہ اس وقت ہے جب ”اَحْصٰى“ کو اسم تفضیل مانیں اور یہ معنی راجح ہے، کیونکہ باب افعال سے بھی ”أَفْعَلُ“ کے وزن پر اسم تفضیل آجاتا ہے۔ دوسرا معنی اس صورت میں ہے کہ ”اَحْصٰى“ کو ماضی معروف قرار دیں، اس وقت معنی یہ ہوگا کہ دونوں گروہوں میں سے کون ہے جس نے اس مدت کو یاد رکھا ہے جو وہ ٹھہرے ہیں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کو گزشتہ، موجودہ اور آئندہ ہر چیز کا علم ہے کہ کیا ہوا، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا، مگر ظاہر ہے کہ یہ علم کہ فلاں کام واقع ہوچکا ہے، اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ کام واقع ہوجائے، یعنی تاکہ ہم اپنے علم کے مطابق اس کا واقع ہونا جان لیں۔
Top