Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی چیز کے بارے میں ہرگز نہ کہہ کہ میں یہ کام کل ضرور کرنے والا ہوں۔
ۧوَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ۔۔ : یہاں شان نزول میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اصحاب کہف، روح اور ذو القرنین سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ”میں تمہیں کل جواب دوں گا“ اور ”ان شاء اللہ“ نہ کہا، تو پندرہ (15) دن وحی رکی رہی، پھر یہ آیت اتری : (ۧوَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا 23؀ۙاِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ) رازی ؓ نے فرمایا کہ قاضی نے اسے کئی وجہوں سے بےکار قرار دیا ہے۔ قاسمی نے فرمایا کہ ان کی بات حق ہے، کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ روایت ایک مجہول شیخ سے بیان کی ہے، جیسا کہ ابن کثیر (اور طبری) میں اس کی سندیں موجود ہیں۔ (محاسن التاویل) 3 اس آیت کا ایک معنی تو مشہور ہے کہ کسی کام کے متعلق یہ مت کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں، مگر اس کے ساتھ ”ان شاء اللہ“ ضرور کہو، کیونکہ اللہ نے چاہا تو کام ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس کی مثال سلیمان ؑ کا واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا : (لَأَطُوْفَنَّ اللَّیْلَۃَ عَلٰی ماءَۃِ امْرَأَۃٍ أَوْ تِسْعٍ وَّتِسْعِیْنَ ، کُلُّھُنَّ یَأْتِيْ بِفَارِسٍ یُجَاھِدُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَالَ لَہُ صَاحِبُہُ قَُلْ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، فَلَمْ یَقُلْ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْھُنَّ إِلَّا امْرَأَۃٌ وَاحِدَۃٌ جَاءَ تْ بِشِقِّ رَجُلٍ ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ ! لَوْ قَالَ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، لَجَاھَدُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فُرْسَانًا أَجْمَعُوْنَ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب من طلب الولد للجہاد : 2819 ]”آج رات میں اپنی سو (100) یا فرمایا ننانوے (99) عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ہر عورت ایک بیٹا جنے گی، جو جہاد فی سبیل اللہ کا شہ سوار ہوگا۔“ ان کے ایک ساتھی نے کہا : ”ان شاء اللہ کہیے۔“ مگر سلیمان ؑ نے (مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے) ان شاء اللہ نہ کہا، تو ان عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو حمل ہوا اور وہ بھی ادھورا بیٹا ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو سب عورتوں کے بیٹے ہوتے جو شہ سوار ہوتے اور سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔“ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے نبی ! کسی کام کے بارے میں (اپنی مرضی سے) یہ مت کہیے کہ کل میں یہ کام کرنے والا ہوں، مگر یہ کہ اللہ چاہے، یعنی اللہ چاہے گا کہ آپ وہ کام کریں تو وہ آپ کو اجازت دے گا، پھر آپ اس کے اذن سے یہ کہہ سکتے ہیں۔ (قاسمی) یہ معنی ”ۙاِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ“ الفاظ کے زیادہ قریب ہے اور سورة نجم کی آیات (3، 4) : (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۝ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى) میں بھی یہی مفہوم ہے۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ : یعنی جب بھول جائیں تو یاد آنے پر ”ان شاء اللہ“ کہہ لیں۔ یاد رہے کہ قسم کے ساتھ ”ان شاء اللہ“ کہہ لے تو قسم پوری نہ کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر قسم سے متصل ”ان شاء اللہ“ نہ کہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، مگر یہ آیت دلیل ہے کہ اگر اس کا ارادہ ”ان شاء اللہ“ کہنے کا تھا مگر بھول کر نہیں کہہ سکا اور یاد آتے ہی اس نے کہہ لیا تو اس کا اعتبار ہوگا۔ مستدرک حاکم (4؍303، ح : 7833) میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس ؓ کا قول مروی ہے کہ جب آدمی کسی بات پر قسم کھالے تو وہ ایک سال تک ”ان شاء اللہ“ کہہ سکتا ہے۔“ ابن قیم ؓ نے مدارج السالکین میں فرمایا : ”یہ نسیان کی صورت میں ہے۔“ (محاسن التاویل ملخصاً) وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ۔۔ : اور کہہ دیجیے کہ مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ مجھے اصحاب کہف کی خبر سے بھی قریب تر لوگوں کی ہدایت کا باعث بننے والی خبریں بتائے گا جن سے میری رسالت ثابت ہوگی، چناچہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی بہت سی خبریں آپ کو بتائیں جن کی کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔
Top