Al-Quran-al-Kareem - Al-Kahf : 64
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ١ۖۗ فَارْتَدَّا عَلٰۤى اٰثَارِهِمَا قَصَصًاۙ
قَالَ : اس نے کہا ذٰلِكَ : یہ مَا كُنَّا نَبْغِ : جو ہم چاہتے تھے فَارْتَدَّا : پھر وہ دونوں لوٹے عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمَا : اپنے نشانات (قدم) قَصَصًا : دیکھتے ہوئے
اس نے کہا یہی ہے جو ہم تلاش کر رہے تھے، سو وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر پیچھا کرتے ہوئے واپس لوٹے۔
فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِهِمَا قَصَصًا : یہ واقعہ انبیاء و اولیاء، خصوصاً موسیٰ ، یوشع بن نون اور خضر کے غیب نہ جاننے کی کئی طرح سے دلیل ہے : 1 موسیٰ ؑ کا کہنا کہ مجھ سے زیادہ کوئی عالم نہیں، حالانکہ ان سے زیادہ علم والے موجود تھے۔ 2 اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا۔ 3 موسیٰ ؑ کا اللہ تعالیٰ سے خضر کا پتا پوچھنا۔ 4 مجمع البحرین اور مچھلی کی نشانی کی ضرورت عالم الغیب کو نہیں ہوتی۔ 5 مچھلی کے نکل جانے کا علم نہ ہونا۔ 6 اگلا سفر، تھکاوٹ کے احساس کی وجہ معلوم نہ ہونا۔ 7 قدموں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے واپسی کی اسے کیا ضرورت ہے جس کی نگاہ سے کچھ اوجھل نہ ہو۔ مزید اگلی آیات میں ملاحظہ فرمائیے۔
Top