Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 204
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖ١ۙ وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَن : جو يُّعْجِبُكَ : تمہیں بھلی معلو ہوتی ہے قَوْلُهٗ : اس کی بات فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيُشْهِدُ : اور وہ گواہ بناتا ہے اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا : جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں وَھُوَ : حالانکہ وہ اَلَدُّ : سخت الْخِصَامِ : جھگڑالو
اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جس کی بات دنیا کی زندگی کے بارے میں تجھے اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اس پر گواہ بناتا ہے جو اس کے دل میں ہے، حالانکہ وہ جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے۔
اوپر کی آیات میں ”وَمِنَ النَّاسِ“ سے لے کر یہاں تک دو قسم کے لوگ ذکر کیے، یعنی طالب دنیا اور طالب دنیا و آخرت۔ اب یہاں سے منافقین کے اوصاف کا بیان ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں چند ایسے چال باز لوگ تھے (اور ہمیشہ رہے ہیں) ، ان آیات میں ان کی صفات بیان فرما کر ان سے چوکس رہنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (قرطبی، فتح القدیر) تفاسیر میں گو ان آیات کا سبب نزول اخنس بن شریق ثقفی کو بیان کیا گیا ہے، مگر الفاظ کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص کو شامل ہیں جس میں یہ پانچوں صفات پائی جائیں۔ (کبیر) علاوہ ازیں وہ تمام روایات جن میں اس آیت کے اخنس کے بارے میں اترنے کا ذکر ہے، ضعیف ہیں۔ (دیکھیے الاستیعاب فی بیان الاسباب) اس لیے یہ آیت عام ہے۔ ایسے منافق کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی سے متعلق بہت سی معلومات رکھتا ہے، اس موضوع پر بات کرے تو آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ آخرت پر نہ وہ بات کرتا ہے نہ اسے اس کا علم ہے۔ (دیکھیے الروم : 6، 7) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ ہر سخت دل متکبر، بخیل پیٹو سے بغض رکھتا ہے جو بازاروں میں شور کرنے والا ہے، رات کو مردار اور دن کو گدھا ہے، دنیا کے معاملات کا عالم ہے، آخرت کے معاملات سے جاہل ہے۔“ [ صحیح ابن حبان : 1957۔ السلسلۃ الصحیحۃ : 195 ] دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر اپنے ایمان و اخلاص کا یقین دلاتا ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے ہاں اپنے بےاعتبار ہونے کو خوب سمجھتا ہے۔ (دیکھیے سورة منافقون کی ابتدائی آیات) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ”اَلَدُّ الْخِصَام“ ہے۔ ”اَلَدّ“ کا معنی سخت جھگڑالو ہے۔ ”الْخِصَامِ“ یا تو باب مفاعلہ کا مصدر ہے، اس صورت میں معنی ہوگا جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، یا ”خَصْمٌ“ (جھگڑنے والا) کی جمع ہے، معنی ہوگا جھگڑنے والوں میں سے بہت سخت جھگڑالو ہے۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سب آدمیوں سے زیادہ مبغوض ”اَلْاَلَدُّ الْخَصِمُ“ (سخت جھگڑا لو) ہے۔“ [ بخاری، التفسیر، باب : (وہو ألد الخصام) : 4523۔ مسلم : 2668 ] اور رسول اللہ ﷺ نے منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک یہ بیان فرمائی : ”وہ جب جھگڑتا ہے تو بدزبانی کرتا ہے۔“ [ بخاری، الإیمان، باب علامۃ المنافق : 34۔ مسلم : 58 ] چوتھی صفت یہ ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے پاس اپنے اخلاص کی قسمیں کھا کر واپس جاتا ہے تو تخریبی کاروائیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد اور کھیتوں اور جان و مال کو برباد کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے ”تَوَلّٰى“ کا ایک معنی ہے ”وہ واپس جاتا ہے“ اور دوسرا معنی ہے ”جب وہ والی یعنی حاکم یا صاحب اقتدار بنتا ہے۔“ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے لیے کہا جائے تو اس کی (جھوٹی) عزت اور غرور نفس اسے گناہ میں پھنسائے رکھتا ہے۔
Top