Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 10
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، کمال حکمت والا ہے (تو جھوٹوں کو دنیا ہی میں سزا مل جاتی)۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ۔۔ : ”اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی۔۔“ اس ”اگر“ کا جواب محذوف ہے، یعنی ”تو پھر تمہارا وہ حال ہوتا جو بیان میں آنا مشکل ہے“ اس لیے یہ جواب محذوف کردیا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لعان کا حکم نازل نہ کرتا تو خاوند اگر بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھتا تو اس کا معاملہ دوسرے لوگوں کی طرح نہیں تھا، جن کے متعلق حکم ہے کہ اگر وہ کسی کو زنا کرتے ہوئے دیکھیں اور وہ چار گواہ نہ لاسکتے ہوں تو خاموش رہیں، کیونکہ اس میں ان کا ذاتی دخل نہیں اور وہ اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں، بخلاف خاوند کے کہ وہ اگر خاموش رہے تو ساری عمر دل کی جلن کے ساتھ خاموش رہے اور دوسروں کی اولاد کو اپنی اولاد تسلیم کرے، طلاق دے تو اس کا نقصان ہے اور اگر الزام لگائے تو چار گواہ لائے، اگر نہ لاسکے، جو بظاہر لانے ممکن نہیں تو بہتان کی حد جھیلے۔ دوسری طرف اگر محض خاوند کے الزام یا قسمیں کھانے سے بیوی کے زنا کا ثبوت ہوجاتا تو عورت کے لیے سخت مصیبت تھی، کیونکہ ممکن ہے وہ سچی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو قسمیں کھانے کی وجہ سے بری سمجھ لیا جاتا تو مرد پر حد قذف واجب ہوجاتی، حالانکہ ممکن ہے وہی سچا ہو۔ اس لیے لعان کا حکم اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے اور اس نے یہ حکم اپنے ”تَوَّابٌ“ اور ”حَكِيْمٌ“ ہونے کی وجہ سے دیا ہے، تاکہ میاں بیوی میں سے جو فریق سچا ہو بلاسبب سزا سے بچ جائے اور جو جھوٹا ہو دنیا میں اس پر پردہ رہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی توّابیت کی صفت کی بدولت توبہ کرلے اور اسے توبہ قبول ہونے کی سعادت حاصل ہوجائے۔
Top