Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 25
یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يُّوَفِّيْهِمُ : پورا دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ دِيْنَهُمُ : ان کا بدلہ الْحَقَّ : سچ (ٹھیک ٹھیک) وَيَعْلَمُوْنَ : اور وہ جان لیں گے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہی الْحَقُّ : برحق الْمُبِيْنُ : ظاہر کرنے والا
اس دن اللہ انھیں ان کا صحیح بدلہ پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ بیشک اللہ ہی حق ہے، جو ظاہر کرنے والا ہے۔
يَوْمَىِٕذٍ يُّوَفِّيْهِمُ اللّٰهُ دِيْنَهُمُ الْحَقَّ۔۔ : ”دِيْنَهُمُ“ سے مراد جزا ہے، کیونکہ وہی پوری دی جائے گی۔ دوسری جگہ فرمایا : (ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَاۗءَ الْاَوْفٰى) [ النجم : 41 ] ”پھر اسے اس کا بدلا دیا جائے گا، پورا بدلا۔“ وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِيْنُ : اللہ تعالیٰ کی صفت ”الْحَقُّ“ کے دو معنی ہیں، ایک معنی ”ثابت“ ہے، کیونکہ اس کی ذات ہمیشہ سے ہے، نہ اس پر پہلے عدم ہے اور نہ اس پر کبھی فنا ہے، دوسری کسی چیز میں یہ صفت نہیں پائی جاتی ہے۔ لفظ ”اَللّٰه“ اور اس کی خبر ”الْحَقُّ“ پر الف لام آنے سے اور ان دونوں کے درمیان ”ھُوْ“ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی حق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، باقی سب باطل ہیں، کیونکہ حق کے مقابلے میں باطل ہے۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَصْدَقُ کَلِمَۃٍ قَالَھَا الشَّاعِرُ کَلِمَۃُ لَبِیْدٍ : أَلَا کُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ) [ بخاري، مناقب الأنصار، باب أیام الجاھلیۃ : 3841 ] ”سب سے سچی بات جو شاعر نے کہی ہے، وہ لبید کی بات ہے کہ سن لو ! اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے۔“ ”حق“ کا دوسرا معنی عدل و انصاف ہے، مراد ”ذُو الْحَقِّ أَيْ ذو الْعَدْلِ“ ہے، یعنی عدل و انصاف والا ہے، جیسے ”زَیْدٌ عَدْلٌ“ بول کر مراد ”ذُوالْعَدْلِ“ لیتے ہیں۔ یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بہتان لگانے والوں کو ان کا صحیح بدلا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو حق فیصلہ کرنے والا ہے، سچ کو سچ ظاہر کرنے والا ہے۔ کیونکہ دوسرے حاکم حق فیصلہ کریں بھی تو اس میں خطا اور کوتاہی کا امکان رہتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جس کا ہر فیصلہ حق ہے۔ 3 اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ”اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ۔۔“ سے مراد کفار و منافقین ہی ہیں، کیونکہ مومن کو تو دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے ”الْحَقُّ الْمُبِيْنُ ‘ ہونے کا علم ہے، اس لیے اگر اس سے بہتان کی غلطی سرزد ہوجائے تو وہ اللہ کے خوف سے توبہ کرلیتا ہے، جبکہ کافر اور منافق اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے بہتان باندھنے پر جمے رہتے ہیں، انھیں قیامت کو اللہ تعالیٰ کے ”الْحَقُّ الْمُبِيْنُ“ ہونے کا علم ہوگا۔
Top