Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ
: اور فرما دیں
لِّلْمُؤْمِنٰتِ
: مومن عورتوں کو
يَغْضُضْنَ
: وہ نیچی رکھیں
مِنْ
: سے
اَبْصَارِهِنَّ
: اپنی نگاہیں
وَيَحْفَظْنَ
: اور وہ حفاظت کریں
فُرُوْجَهُنَّ
: اپنی شرمگاہیں
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: زپنی زینت
اِلَّا
: مگر
مَا
: جو
ظَهَرَ مِنْهَا
: اس میں سے ظاہر ہوا
وَلْيَضْرِبْنَ
: اور ڈالے رہیں
بِخُمُرِهِنَّ
: اپنی اوڑھنیاں
عَلٰي
: پر
جُيُوْبِهِنَّ
: اپنے سینے (گریبان)
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: اپنی زینت
اِلَّا
: سوائے
لِبُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے خاوندوں پر
اَوْ
: یا
اٰبَآئِهِنَّ
: اپنے باپ (جمع)
اَوْ
: یا
اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے شوہروں کے باپ (خسر)
اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ
: یا اپنے بیٹے
اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: یا اپنے شوہروں کے بیٹے
اَوْ اِخْوَانِهِنَّ
: یا اپنے بھائی
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ
: اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے)
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ
: یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے)
اَوْ نِسَآئِهِنَّ
: یا اپنی (مسلمان) عورتیں
اَوْ مَا مَلَكَتْ
: یا جن کے مالک ہوئے
اَيْمَانُهُنَّ
: انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں)
اَوِ التّٰبِعِيْنَ
: یا خدمتگار مرد
غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ
: نہ غرض رکھنے والے
مِنَ
: سے
الرِّجَالِ
: مرد
اَوِ الطِّفْلِ
: یا لڑکے
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
لَمْ يَظْهَرُوْا
: وہ واقف نہیں ہوئے
عَلٰي
: پر
عَوْرٰتِ النِّسَآءِ
: عورتوں کے پردے
وَلَا يَضْرِبْنَ
: اور وہ نہ ماریں
بِاَرْجُلِهِنَّ
: اپنے پاؤں
لِيُعْلَمَ
: کہ جان (پہچان) لیا جائے
مَا يُخْفِيْنَ
: جو چھپائے ہوئے ہیں
مِنْ
: سے
زِيْنَتِهِنَّ
: اپنی زینت
وَتُوْبُوْٓا
: اور تم توبہ کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف ( آگے)
جَمِيْعًا
: سب
اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ
: اے ایمان والو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے، یا اپنے باپوں، یا اپنے خاوندوں کے باپوں، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں، یا اپنے بھتیجوں، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی عورتوں (کے لیے) ، یا (ان کے لیے) جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے جو شہوت والے نہیں، یا ان لڑکوں کے لیے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے اور اپنے پاؤں (زمین پر) نہ ماریں، تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو ! تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ۔۔ : عورتوں کو بھی اسی طرح اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم فرمایا جیسے مردوں کو یہ حکم دیا، مگر عورتوں پر مردوں کو نہ دیکھنے کی اتنی سختی نہیں جتنی مردوں پر عورتوں کے دیکھنے کے بارے میں ہے۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ”میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ اپنی چادر کے ساتھ مجھے پردے میں لیے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی، وہ (برچھوں کے ساتھ) کھیل رہے تھے، یہاں تک کہ میں ہی اکتا جاتی، تو ایک نو عمر لڑکی کا اندازہ کرلو جو کھیل دیکھنے کی شوقین ہو۔“ [ بخاري، النکاح، باب نظر المرأۃ إلی الحبش۔۔ : 5236 ] یعنی اندازہ لگا لو کہ رسول اللہ ﷺ میرے لیے کتنی دیر کھڑے رہے ہوں گے۔ فاطمہ بنت قیس ؓ کو ان کے خاوند نے تیسری طلاق دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا : ”ام شریک کے گھر رہ کر عدت گزارو۔“ پھر فرمایا : ”اس عورت کے پاس میرے صحابہ کثرت سے آتے ہیں (کیونکہ وہ مال دار اور بہت مہمان نواز خاتون تھی) ، اس لیے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا آدمی ہے، تم اپنے کپڑے بھی نیچے رکھ سکو گی۔“ [ مسلم، الطلاق، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا : 38؍1480 ] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر شہوانی خیال نہ ہو تو عورتیں مردوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ پردے کا حکم عورتوں کو ہے، تاکہ مرد انھیں نہ دیکھیں، مردوں کو نہیں کہ عورتیں انھیں نہ دیکھیں۔ البتہ اگر شہوت کے ساتھ ہو تو عورتوں کو بھی مردوں کی طرف دیکھنا حرام ہے، جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے۔ 3 سنن ابی داؤد اور بعض دوسری کتب احادیث میں ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھی اور آپ ﷺ کے پاس میمونہ ؓ بھی تھیں تو ابن ام مکتوم ؓ آئے اور یہ واقعہ ہمیں حجاب کا حکم ہونے کے بعد کا ہے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا : ”اس سے حجاب کرو۔“ ہم نے کہا : ”یا رسول اللہ ! کیا یہ نابینا نہیں کہ نہ ہمیں دیکھتا ہے، نہ ہمیں پہچانتا ہے ؟“ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَ فَعَمْیَاوَانِ أَنْتُمَا ؟ أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ !) [ أبوداوٗد، اللباس، باب في قولہ عزوجل : (و قل للمؤمنات۔۔) : 4112 ] ”تو کیا تم بھی اندھی ہو ؟ کیا تم اسے نہیں دیکھتیں !“ اس حدیث سے عورتوں کا آنکھوں والے مردوں کو ہی نہیں نابینا مردوں کو دیکھنا بھی منع ثابت ہوتا ہے، مگر امام ابوداؤد ؓ نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ یہ نبی ﷺ کی بیویوں کی خصوصیت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہ بنت قیس ؓ کو ابن ام مکتوم ؓ کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ ہمارے ایک شیخ اس کی یہ توجیہ فرماتے تھے کہ نابینا آدمی اپنے ستر کا خیال نہیں رکھ سکتا، نہ اسے اپنا ستر کھلنے کا پتا چل سکتا ہے، اس لیے اس سے حجاب کا حکم دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں، چناچہ شیخ البانی ؓ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں ایک راوی نبہان مولیٰ ام سلمہ ہے، اسے تقریب میں ”مقبول“ کہا گیا ہے اور حافظ ابن حجر ؓ نے تقریب کے مقدمہ میں خود فرمایا ہے کہ جس راوی کے متعلق وہ مقبول کہیں، اگر کسی حدیث میں اس کی متابعت ہو تو وہ مقبول ہے، ورنہ ”لین الحدیث“ ہے۔ اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر بتخریج ابن کثیر ] وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا : چونکہ مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ) [ بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ۔۔ : 5096، عن أسامۃ بن زید ] ”میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے علاوہ اپنی زینت چھپانے کا بھی حکم دیا، چناچہ فرمایا کہ مومن عورتوں سے کہہ دے کہ (ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ) اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے۔ زینت کا معنی جمال اور حسن ہے۔ یہ دو قسم کی ہے، ایک فطری حسن و جمال اور دوسری جو بناؤ سنگار، زیبائش و آرائش اور زیور وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ لباس بھی زینت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ) [ الأعراف : 31 ] ”ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔“ اس میں زینت کا معنی لباس ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورتیں اپنی کوئی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہوجائے، یعنی انھیں اپنے بدن اور اس کے بناؤ سنگار میں سے کوئی چیز ظاہر کرنا جائز نہیں مگر وہ کپڑے جنھیں چھپایا جا ہی نہیں سکتا، یا وہ زینت جو کسی کام یا حرکت کی وجہ سے بےاختیار ظاہر ہوجائے۔ ”الصحیح المسبور من التفسیر بالمأثور“ میں ہے : ”طبری نے صحیح اسانید کے ساتھ عبداللہ بن مسعود ؓ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”(وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ) قَالَ ھِيَ الثِّیَابُ“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ”وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے“ اس سے مراد کپڑے ہیں۔“ حاکم نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ (مستدرک حاکم : 2؍397، ح : 3499) اور طبرانی (9116) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (7؍82) میں فرمایا : ”طبرانی نے اسے کئی اسانید کے ساتھ مطول اور مختصر روایت کیا ہے، جن میں سے ایک سند کے راوی صحیحین (بخاری و مسلم) کے راوی ہیں۔“ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ”اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، بلکہ انھوں نے اس کے ساتھ بالیاں، کنگن، انگوٹھی، سرمہ اور منہدی بھی شامل کردی ہے اور یہ کہا ہے کہ عورتوں کا چہرہ اور ہتھیلیاں مع زیور و آرائش وہ زینت ہے جو عورتوں کے لیے اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے ظاہر کرنا جائز ہے۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ابن عباس ؓ کا قول پیش کرتے ہیں کہ ”اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ نہ ابن عباس ؓ کا قول پورا پیش کرتے ہیں اور نہ پردے کے متعلق ان کے دوسرے اقوال پیش نظر رکھتے ہیں۔ چہرے کے پردے کے متعلق ابن عباس ؓ کا موقف طبری نے مشہور حسن سند (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) کے ساتھ بیان کیا ہے، لطف یہ ہے کہ ”اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ کی تفسیر جو چہرے کے پردے کے منکر ابن عباس ؓ سے نا مکمل بیان کرتے ہیں، وہ بھی اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔ ابن عباس ؓ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا) [ الأحزاب : 59 ] (اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : (أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ فِيْ حَاجَۃٍ أَنْ یُّغَطِّیْنَ وُجُوْھَھُنَّ مِنْ فَوْقِ رُءُ وْسِھِنَّ بالْجَلَابِیْبِ وَ یُبْدِیْنَ عَیْنًا وَاحِدَۃً) [ طبري : 28880]”اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔“ ایسا شخص جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے مومن عورتوں کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی رکھنے کو اللہ کا حکم قرار دیتا ہے وہ عورتوں کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو اپنوں اور بیگانوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود اور ابن عباس ؓ کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں۔ عبداللہ بن مسعود نے ”اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ کی تفسیر اجنبیوں کے اعتبار سے فرمائی ہے اور ابن عباس ؓ نے ”اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ کی تفسیر اپنے لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے۔ ابن مسعود ؓ کا مطلب یہ ہے کہ اجنبیوں کے سامنے ظاہری کپڑوں کے سوا کوئی زینت ظاہر نہ کریں اور ابن عباس ؓ کا مطلب یہ ہے کہ ”زینت ظاہرہ“ (چہرہ اور ہاتھ) خاوند کے علاوہ اپنے محرموں کے سامنے بھی ظاہر کرسکتی ہیں، جس میں سرمہ، منہدی، بالیاں، کنگن، ہار سب کچھ شامل ہے۔ ان محرموں کا بیان آگے فرما دیا : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ) [ النور : 31 ] البتہ زینت باطنہ (پیٹ، سینہ، ران اور مخفی حصے) صرف خاوند کے سامنے ظاہر کرسکتی ہیں۔ اب آپ ابن عباس ؓ کی ”اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ کی مکمل تفسیر پڑھیں، جس کا صرف شروع کا حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ طبری نے (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس سے) حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آیت : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا) کے متعلق ابن عباس ؓ نے فرمایا : (وَالزِّیْنَۃُ الظَّاھِرَۃُ : الْوَجْہُ وَ کُحْلُ الْعَیْنِ وَ خِضَابُ الْکَفِّ وَ الْخَاتَمُ ، فَھٰذِہِ تَظْھَرُ فِيْ بَیْتِھَا لِمَنْ دَخَلَ مِنَ النَّاسِ عَلَیْھَا) [ طبري : 26170 ]”زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ، آنکھ کا سرمہ، ہتھیلی کی منہدی اور انگوٹھی ہے، چناچہ وہ یہ چیزیں اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے جو اس کے پاس اندر آتے ہیں۔“ ابن عباس ؓ پر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ وہ یہ زینت گھر کے اندر اپنے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ حضرات سرمہ و منہدی، گلے کے ہار اور کنگن اور انگوٹھی سمیت چہرے اور ہتھیلیوں کو اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے کھلا رکھنے کو ابن عباس ؓ کا قول قرار دے رہے ہیں۔ [ فَیَا لِلْعَجَبِ وَلِضَیْعَۃِ الْأَدَبِ ] 3 اب قرآن مجید اور احادیث و آثار سے چہرے کے پردے کے چند دلائل بیان کیے جاتے ہیں : 1 سب سے پہلے زیر تفسیر آیت ہی کو دیکھیں، اس میں ”وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠) ”اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں“ گریبان پر پہلے ہی قمیص کا کپڑا موجود ہوتا ہے، اس کے باوجود اس پر اوڑھنی کا حکم دیا ہے، اب چہرے کے پردے کے منکر خود ہی غور فرمائیں کہ عورت کے حسن و جمال کے اصل مرکز چہرے کو مع سرمہ و زیور تو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو مرد کے لیے سراسر فتنہ ہے اور سینہ جس پر قمیص بھی تھی اسے مزید اوڑھنی کے ساتھ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا۔ 2 طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس ؓ کا ایک قول نقل کیا ہے جو اللہ کے فرمان ”اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ“ کے متعلق ہے، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں : (فَھٰذَا الرَّجُلُ یَتْبَعُ الْقَوْمَ وَھُوَ مُغَفَّلٌ فِيْ عَقْلِہِ لَا یَکْتَرِثُ للنِّسَاءِ وَلَا یَشْتَھِیْھِنَّ فَالزِّیْنَۃُ الَّتِيْ تُبْدِیْھَا لِھٰؤُلَاءِ قُرْطَاھَا وَ قِلَادَتُھَا وَ سِوَارُھَا وَ أَمَّا خَلْخَالُھَا وَ مِعْضَدَاھَا وَ نَحْرُھَا وَ شَعْرُھَا فَإِنَّھَا لَا تُبْدِیْہِ إِلَّا لِزَوْجِھَا) [ طبري : 26194 ] ”تو یہ وہ آدمی ہے جو کچھ لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور وہ عقل کا بدھو ہے، نہ اسے عورتوں کی پروا ہے نہ ان سے کوئی جنسی حاجت، تو وہ زینت جو ان لوگوں کے سامنے کھول سکتی ہے وہ اس کی بالیاں، ہار اور کنگن ہیں، رہی اس کی پازیب، بازو، سینہ اور بال تو وہ صرف خاوند کے سامنے کھول سکتی ہے۔“ ”وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ“ میں پاؤں کو زور سے زمین پر مارنے سے منع کیا کہ مردوں کو ان کے زیور کی آواز سے شہوانی خیال پیدا نہ ہو۔ اب ایک عورت جو معلوم نہیں جوان ہے یا بوڑھی، خوبصورت ہے یا بدصورت، اس کی پازیب کی آواز دلوں میں خرابی پیدا کرتی ہے اور اسے چھپائے رکھنے کا حکم ہے، تو چہرہ جس پر کسی عورت کے خوبصورت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہوگیا ؟ (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ) [ الأحزاب : 59 ] ”اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔“ اس آیت کی تفسیر ابن عباس ؓ سے اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں (اگر راستہ وغیرہ دیکھنے کی ضرورت ہو، ورنہ وہ بھی نہیں)۔ اس آیت سے استدلال کی مزید تفصیل کے لیے سورة احزاب ملاحظہ فرمائیں۔ (وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۢ بِزِيْنَةٍ ۭوَاَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ) [ النور : 60 ] ”اور عورتوں میں سے بیٹھ رہنے والیاں، جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں، سو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار دیں، جب کہ وہ کسی قسم کی زینت ظاہر کرنے والی نہ ہوں اور یہ بات کہ (اس سے بھی) بچیں ان کے لیے زیادہ اچھی ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ استدلال کی تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر دیکھیے۔ 6 (لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ وَلَآ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِهِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَاۗىِٕـهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ۚ وَاتَّـقِيْنَ اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا) [ الأحزاب : 55 ] ”ان (عورتوں) پر کوئی گناہ نہیں اپنے باپوں (کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان (کے سامنے آنے) میں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور (اے عورتو !) اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح شاہد ہے۔“ ابن کثیر ؓ نے فرمایا : ”جب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اجنبیوں سے حجاب کا حکم دیا تو وضاحت فرما دی کہ ان اقارب سے حجاب نہیں، جیسا کہ سورة نور کی آیت (31) : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠) میں وضاحت فرمائی ہے، جب ان اقارب سے پردہ نہ کرنے میں گناہ نہیں تو معلوم ہوا کہ اجنبیوں سے پردہ نہ کرنے میں گناہ ہے۔“ 7 احادیث سے بھی عورتوں کے لیے پردے کا حکم ثابت ہے، یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں، اس سے پہلے صحیح بخاری میں سے عائشہ ؓ کی لمبی حدیث بیان ہوچکی ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں کہ صفوان بن معطل ؓ لشکر کے پیچھے تھے، وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے جہاں میں لیٹی ہوئی تھی، تو اس نے ایک سویا ہوا انسان دیکھا، پھر جب وہ میرے پاس آئے، تو اس نے مجھے پہچان لیا، کیونکہ وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے، تو میں نے اپنی بڑی چادر کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ [ بخاري : 2661 ] یہ حدیث صاف دلیل ہے کہ اگر حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے ام المومنین کو نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی نہ پہچان سکتے، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد انھیں دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ 8 نبی ﷺ نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا : (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِحْدَانَا لَیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ، قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا) [ بخاري، الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ في الثیاب : 351 ] ”یا رسول اللہ ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی ؟“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس کی بہن اسے پہننے کے لیے کوئی اپنی بڑی چادر دے دے۔“ اگر پردہ فرض نہ ہوتا تو ان کے سوال کا جواب تھا کہ دوپٹا ہی کافی ہے، بڑی چادر کی ضرورت نہیں۔ 9 عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ”اونٹوں کے سوار ہمارے پاس سے گزرتے، جب کہ ہم احرام کی حالت میں ہوتیں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی بڑی چادر سر سے چہرے پر لٹکا لیتی، جب گزر جاتے تو ہم اسے ہٹا دیتیں۔“ [ أبوداوٗد، المناسک، باب في المحرمۃ تغطي وجھھا : 1833 ] عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا : ”اس حدیث میں ایک راوی پر کلام کیا گیا ہے، اسی لیے البانی ؓ نے اسے ضعیف ابی داؤد میں ذکر کیا ہے، لیکن انھوں نے ”مشکوٰۃ“ میں اسے ”حسن“ کہا ہے اور ”حجاب المرأۃ المسلمۃ“ میں بھی حسن کہا ہے اور اسماء ؓ سے ایک صحیح سند کے ساتھ اس کا شاہد بھی ہے، چناچہ یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔“ تو احرام کی حالت میں، جب نقاب پہننا منع ہے، اگر پردہ واجب نہ ہوتا تو وہ چہرے پر چادریں کیوں لٹکاتیں ؟ 3 اب ان لوگوں کے دلائل ملاحظہ فرمائیں جو چہرے اور ہتھیلیوں کے پردے کو واجب نہیں مانتے، ان کی سب سے بڑی دلیل قرآن مجید کے الفاظ ”وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا“ کی ابن عباس ؓ سے مروی تفسیر ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور صحابی کی تفسیر حجت ہے۔ ابن عباس ؓ کا پورا قول اور اس کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے، ابن عباس ؓ نے محرم رشتہ داروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی بات فرمائی ہے نہ کہ اجنبیوں کے سامنے اور اگر کسی کو اصرار ہو کہ ابن عباس ؓ سب لوگوں کے سامنے عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رکھنے کے قائل ہیں، تو یاد رہے کہ کسی صحابی کی تفسیر اسی وقت حجت ہوگی جب دوسرے کسی صحابی نے اس کے خلاف تفسیر نہ کی ہو۔ یہاں ابن مسعود ؓ نے اجنبیوں کے سامنے صرف کپڑوں کا ظاہر ہوجانا جائز رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ) [ النساء : 59 ] ”پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔“ یعنی تنازع کے وقت کسی کی بات بھی حجت نہیں رہتی، اس وقت صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات حجت ہوتی ہے اور قرآن و سنت کی رو سے غیر محرم مردوں سے چہرے اور ہاتھوں کا پردہ واجب ہے، جیسا کہ آپ اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں۔ ان حضرات کی دوسری دلیل عائشہ ؓ سے مروی سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سالی اسماء بنت ابی بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، تو آپ ﷺ نے ان سے رخ پھیرلیا اور فرمایا : (یَا أَسْمَاءُ ! إِنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ لَمْ یَصْلُحْ لَھَا أَنْ یُّرَی مِنْھَا إِلَّا ھٰذَا وَ ھٰذَا) [ أبوداوٗد، اللباس، باب فیما تبدي المرأۃ من زینتھا : 4104 ] ”اسماء ! عورت جب بلوغت کو پہنچ جائے تو (آپ ﷺ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) اس کے سوا اور اس کے سوا اس کی کوئی چیز نظر آنا درست نہیں۔“ اس حدیث سے عورت کا غیر محرم کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں ظاہر کرنا جائز ثابت ہوا۔ اس دلیل کے متعلق عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے : ”یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں انقطاع ہے (خود امام ابوداؤد نے فرمایا ہے کہ خالد بن دریک نے عائشہ ؓ سے نہیں سنا) اور اس میں سعید بن بشیر ضعیف ہے، پھر اس میں ولید کی تدلیس ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے، کیونکہ یہ بات بہت بعید ہے کہ اسماء بڑی عمر میں باریک کپڑوں میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے آئیں، کیونکہ ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس برس تھی۔“ محمد بن صالح بن عثیمین نے بھی ”رسالۃ الحجاب“ میں انھی وجوہ سے حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مانا جائے تو اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ یہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے اور یہ مسلّمہ قاعدہ ہے کہ احتمال کے ہوتے ہوئے استدلال ممکن نہیں ہوتا۔ اردو تفسیر کے ایک مصنف نے اس حدیث سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ اجنبیوں کے سامنے تو نہیں البتہ عورت محرم رشتہ داروں کے علاوہ ان رشتہ داروں کے سامنے بھی چہرہ اور ہتھیلیاں کھول سکتی ہے جو محرم نہ ہوں، مگر جب روایت ہی ثابت نہیں تو اس سے استدلال کیسے ہوسکتا ہے۔ انھی بزرگوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی چچا زاد بہن ام ہانی ؓ آخر وقت تک آپ ﷺ کے سامنے آتی رہیں اور کم از کم منہ اور چہرے کا پردہ انھوں نے آپ سے کبھی نہیں کیا۔ اس کی دلیل کے طور پر انھوں نے ابوداؤد سے ایک روایت کا حوالہ دیا ہے، جس میں ہے کہ ام ہانی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا بچا ہوا پانی پیا، اس میں چہرہ کھلا ہونے کا ذکر ہی نہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ کئی بزرگ کس طرح اپنے پاس سے بات بنا کر اسے کتب احادیث کے ذمے لگا دیتے ہیں اور کسی دلیل کے بغیر یہ دعویٰ کردیتے ہیں کہ فلاں عورت نے رسول اللہ ﷺ سے چہرے کا پردہ کبھی نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بالکل بےدلیل ہے کہ غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھولنے جائز ہیں اور یہ بات فتنے کا بہت بڑا دروازہ کھولنے کا باعث ہے۔ تیسری دلیل ان حضرات کی صحیح بخاری میں مروی عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ فضل بن عباس ؓ سواری پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھے، تو خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی، تو رسول اللہ ﷺ فضل کا منہ دوسری طرف پھیرنے لگے۔ [ بخاري، الحج، باب وجوب الحج۔۔ : 1513 ] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں پردہ نہیں کیا، اگر پردہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے پردے کا حکم دیتے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ عورت بےپردہ تھی، اگر فرض کیا جائے کہ وہ بےپردہ تھی تو اس میں یہ ذکر نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پردے کا حکم نہیں دیا۔ پردے کا حکم جب اس سے پہلے آیات و احادیث کے ذریعے امت تک پہنچ چکا تھا تو اگر کسی موقع پر رسول اللہ ﷺ سے اس کی تاکید نقل نہ بھی ہوئی ہو تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ : ”خُمُرٌ“ ”خِمَارٌ“ کی جمع ہے ”اوڑھنی۔“ ”جُیُوْبٌ“ ”جَیْبٌ“ کی جمع ہے ”گریبان۔“ یعنی عورتوں کو چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں سر سے لا کر گریبان پر ڈالیں، تاکہ سینہ اور گلے کا زیور چھپا رہے۔ اسلام سے پہلے کی جاہلیت میں عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتی تھیں، بلکہ وہ دوپٹے کے دونوں کنارے پیچھے کی طرف لٹکا لیتیں، جس سے بسا اوقات ان کی گردن، بال، چوٹی، زیور اور چھاتی صاف نظر آتی تھیں، موجودہ زمانے کی جاہلیت کا حال اس سے بھی بدتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا۔ سورة احزاب کی آیت (58) میں بھی عورتوں کو بڑی چادریں نیچے لٹکا کر رکھنے کا حکم دیا۔ عائشہ ؓ نے فرمایا : (یَرْحَمُ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُھَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللّٰہُ : (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠) شَقَقْنَ أَکْنَفَ مُرُوْطِھِنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِھَا) [ أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللہ تعالیٰ : (و لیضربن بخمرھن علی جیوبھن) : 4102 ]”اللہ تعالیٰ پہلی مہاجر عورتوں پر رحم فرمائے، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠) تو انھوں نے اپنی سب سے موٹی چادریں پھاڑیں اور انھیں اوڑھ لیا۔“ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ۔۔ : یعنی بےاختیار ظاہر ہونے والی زینت یعنی لباس تو خود ہی ظاہر ہوجاتا ہے، گھر کے اندر یا گھر سے باہر کسی جگہ لباس کے ظاہر ہونے میں کوئی گناہ نہیں، البتہ اس کے علاوہ زینت ظاہرہ یعنی چہرہ اور ہاتھ صرف ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ کل بارہ (12) ہیں۔ ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ذکر حدیث میں ہے۔ ان میں سب سے پہلے خاوند ہے، اس کے سامنے تو عورت اپنی ظاہر و باطن ہر زینت ظاہر کرسکتی ہے، کیونکہ اس کی ساری زینت خاوند ہی کی امانت ہے۔ البتہ اس کے بعد جن لوگوں کا ذکر ہے ان کے سامنے صرف چہرہ اور ہاتھ کھول سکتی ہیں۔ ”اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ“ آباء میں دادا و پڑدادا اور نانا و پڑنانا بھی شامل ہیں۔ رضاعی باپ دادا کا بھی یہی حکم ہے۔ آیت میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ان کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ اگر وہ اپنی بھتیجی یا بھانجی کو دیکھیں گے تو ممکن ہے کہ اپنے بیٹوں کے سامنے ان کے حسن و جمال کا ذکر کریں، اس لیے ان کے بقول چچا اور ماموں سے بھی پردہ ہے، مگر یہ بات غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چچا اور ماموں بھی باپ کے حکم میں ہیں، انھیں بھی مجازاً باپ کہہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ یعقوب ؑ کے بیٹوں نے کہا تھا : (نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا) [ البقرۃ : 133 ] ”ہم تیرے معبود اور تیرے باپ داد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی پیروی کریں گے جو ایک ہی معبود ہے۔“ اس میں اسماعیل ؑ کو یعقوب ؑ کا باپ کہا ہے، حالانکہ وہ ان کے چچا تھے۔ رضاعی چچا اور رضاعی ماموں سے بھی پردہ نہیں۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرا رضاعی چچا آیا اور اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھے بغیر اجازت دینے سے انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ آئے اور میں نے اس کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّہُ عَمُّکِ فَأْذَنِيْ لَہُ ، قَالَتْ ، فَقُْلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَۃُ وَلَمْ یُرْضِعْنِي الرَّجُلُ ، قَالَتْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِنَّہُ عَمُّکِ فَلْیَلِجْ عَلَیْکِ قَالَتْ عَاءِشَۃُ وَ ذٰلِکَ بَعْدَ أَنْ ضُرِبَ عَلَیْنَا الْحِجَابُ ، قَالَتْ عَاءِشَۃُ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَۃِ) [ بخاري، النکاح، ما یحل من الدخول۔۔ : 5239 ]”وہ تمہارا چچا ہے، اسے اندر آنے دو۔“ وہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! مجھے دودھ عورت نے پلایا ہے، مرد نے نہیں۔“ کہتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ”وہ تمہارا چچا ہے، اسے اندر آنے دو۔“ عائشہ ؓ کہتی ہیں : ”اور یہ حجاب فرض ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔“ عائشہ ؓ نے فرمایا : ”رضاعت سے وہ سب رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔“ ”اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ“ بیٹوں میں ساری اولاد شامل ہے، بیٹے، پوتے، نواسے اور ان سے بھی نیچے تک سب بیٹے ہیں۔ ”اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ“ بھائیوں اور بہنوں میں عینی بھی شامل ہیں، جو ماں باپ دونوں کی طرف سے ہوں، علاتی بھی، جو صرف باپ کی طرف سے ہوں اور اخیافی بھی، جو صرف ماں کی طرف سے بھائی بہن ہوں۔ ایسے بھائی، بھتیجے، بھانجے اور ان کے بیٹے، پوتے اور نواسے نیچے تک کسی سے بھی پردہ نہیں، بلکہ وہ تمام مرد جن سے نکاح حرام ہے کسی سے بھی پردہ نہیں، مثلاً داماد اور ساس وغیرہ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَا یَحِلُّ لامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِیْرَۃَ یَوْمٍ وَ لَیْلَۃٍ لَیْسَ مَعَھَا حُرْمَۃٌ) [ بخاري، التقصیر، باب في کم یقصر الصلاۃ ؟: 1088 ] ”کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ ایک دن رات کا سفر محرم کے بغیر کرے۔“ ”اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ“ اپنی عورتوں سے پردہ نہ ہونے سے ظاہر ہے کہ جو اپنی نہ ہوں ان سے پردہ ہے۔ عبد الرحمان کیلانی ؓ لکھتے ہیں : ”اپنی عورتوں سے مراد آپس میں میل ملاقات رکھنے والی مسلمان عورتیں ہیں، جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتی پہچانتی اور ایک دوسرے پر اعتبار رکھتی ہوں۔ رہی دوسری غیر مسلم، مشتبہ اور اَن جانی عورتیں تو ایسی عورتوں سے اپنی زیب و زینت چھپانے اور حجاب کا ایسا ہی حکم ہے جیسے غیر مردوں سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ عورتیں ہی ہوتی ہیں جو قحبہ گری کی دلالی بھی کرتی ہیں، نو خیز اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر غلط راہوں پر ڈال دیتی ہیں اور شیطان کی پوری نمائندگی کرتی ہیں۔ ایک گھر کے بھید کی باتیں دوسرے گھر میں بیان کرکے فحاشی پھیلاتی اور اس کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ ایسی بدمعاش قسم کی عورتوں سے پرہیز کی سخت ضرورت ہے۔ لہٰذا تمام اَن جانی اور غیر مسلم عورتوں یا غیر عورتوں سے بھی حجاب کا حکم دیا گیا، بلکہ ایسی عورتوں کو گھروں میں داخلہ پر بھی ایسے ہی پابندی لگانا ضروری ہے جیسے غیر مردوں کے لیے ضروری ہے۔“ (تیسیر القرآن) ”اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ“ عورت اپنے غلام کے سامنے بھی اپنی وہ زینت ظاہر کرسکتی ہے جو دوسرے محرموں کے سامنے ظاہر کرتی ہے۔ انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک غلام لے کر فاطمہ ؓ کے پاس آئے، جو آپ ﷺ نے انھیں ہبہ کیا تھا، فاطمہ ؓ پر ایک کپڑا تھا، وہ اس کے ساتھ سر ڈھانپتیں تو پاؤں تک نہ پہنچتا اور جب اس کے ساتھ پاؤں ڈھانپتیں تو سر پر نہ پہنچتا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان کی مشکل دیکھی تو فرمایا : (إِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکِ بَأْسٌ إِنَّمَا ھُوَ أَبُوْکِ وَ غُلَامُکِ) [ أبوداوٗد، اللباس، باب فی العبد ینظر إلی شعر مولاتہ : 4106، قال الألباني صحیح ]”تم پر کوئی حرج نہیں، یہاں صرف تمہارا باپ ہے اور تمہارا غلام ہے۔“ اس حدیث سے اجنبیوں کے سامنے سر اور پاؤں چھپانے کا حکم بھی ثابت ہوا۔ ”اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ“ اس کی تفسیر ابن عباس ؓ سے زیر تفسیر آیت کے فائدہ نمبر (4) کے تحت دیکھیے۔ ”اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ“ سے مراد وہ بچے ہیں جو نابالغ ہوں اور انھیں میاں بیوی کے معاملے کی خبر نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان نابالغ بچوں سے پردہ کرنا چاہیے جنھیں ایسے معاملات کی خبر ہو اور وہ عورت کی خوبصورتی اور بدصورتی کا ادراک رکھتے ہوں، اس اندازے کے لیے اس حدیث میں اشارہ ملتا ہے جو عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَ ھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَ فَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ : 495، قال الألباني حسن صحیح ] ”اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انھیں اس کی وجہ سے مارو جب وہ دس برس کے ہوں اور انھیں بستروں میں ایک دوسرے سے الگ کر دو۔“ ”۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ۔۔“ طبری نے حسن سند کے ساتھ (عن علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس ؓ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں ایک پازیب کو دوسری کے ساتھ کھڑکائے۔ اس کے پاؤں میں پازیبیں ہوں، جنھیں وہ مردوں کے پاس حرکت دے تو اللہ سبحانہ نے اس سے منع کردیا، کیونکہ یہ شیطان کا عمل ہے۔ [ طبري : 26217 ] یہاں چہرے کے پردے کو واجب نہ ماننے والے حضرات کو غور کرنا چاہیے کہ جب عورتوں کو زور سے پاؤں مار کر پازیبوں کی آواز نکالنا منع ہے کہ کہیں مردوں کو ان کی مخفی زینت معلوم نہ ہوجائے، جس سے ان کے دلوں میں کوئی غلط خیال پیدا ہو، تو یہ آواز مردوں کے دلوں میں زیادہ کشش اور فتنے کا باعث ہے، یا چہرہ جو عورت کے حسن و جمال کا آئینہ ہے ؟ فیصلہ کرتے وقت انصاف شرط ہے۔ 3 اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس دروازے کو بند کرنا چاہتے ہیں جس سے فحاشی کے در آنے کا امکان ہو۔ اس لیے جس طرح پاؤں مار کر زینت کا اظہار منع ہے اسی طرح کوئی بھی ایسی حرکت جس سے پوشیدہ زینت کا اظہار ہو، منع ہے۔ چناچہ عورت کو خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا منع ہے، اسے راستے کے درمیان چلنے سے منع کیا گیا ہے اور راستے کے کنارے پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تفصیل ابن کثیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ زینت کے اظہار کے علاوہ اسے غیر مردوں کے ساتھ نرم اور لوچدار لہجے میں بات کرنا منع ہے، جس سے ان کے دل میں طمع پیدا ہو۔ [ دیکھیے الأحزاب : 32 ] حتیٰ کہ اسے نماز میں ”سبحان اللہ“ کہنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر امام کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کا حکم ہے۔ (دیکھیے بخاری : 1203) البتہ جب کسی قسم کا غلط خیال پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہو تو عورت پردے میں رہ کر مردوں کو نصیحت کرسکتی ہے، انھیں علم پڑھا سکتی ہے، جیسا کہ امہات المومنین اور قرون خیر کی عورتیں مردوں کو احادیث بیان کیا کرتی تھیں۔ عورت کو محرم یا خاوند کے بغیر سفر کرنا منع ہے، کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت منع ہے، حتیٰ کہ خاوند کے بھائی کے ساتھ بھی تنہائی میں بیٹھنا منع ہے، بلکہ دیور اور جیٹھ کو رسول اللہ ﷺ نے موت قرار دیا۔ (دیکھیے بخاری : 5232) اگرچہ اسے مسجد میں نماز اور جمعہ کے لیے جانے کی اجازت ہے، مگر گھر میں اس کی نماز کو افضل قرار دیا گیا ہے مگر چونکہ مسجد میں قرآن کی تلاوت اور خطبہ وغیرہ سن کر علم حاصل ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَکُمُ امْرَأَتُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَلَا یَمْنَعْھَا) [ مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء إلی المساجد۔۔ : 442۔ بخاري : 873 ] ”جب تم میں سے کسی کی بیوی اس سے مسجد میں جانے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے۔“ عورتوں کو خاوندوں کے لیے زیبائش و آرائش کی اجازت ہے، بلکہ اس کا حکم ہے، مگر اس میں جعل سازی کی اجازت نہیں، جس سے اس کی فطری شکل و صورت تبدیل ہوجائے۔ عورتیں عموماً ایسے کام غیر مردوں کو مائل کرنے کے لیے اختیار کرتی ہیں، مثلاً ابروؤں کو باریک کرنا، چہرے کے بال اکھاڑنا، سر کے بالوں میں بال ملانا، اللہ کی پیدائش کو بدلنا، ان سب پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ (دیکھیے بخاری : 4886) اسی طرح اونچی ایڑی کے ساتھ قد لمبا کرکے دکھانا بنی اسرائیل کے فساد کے زمانے میں ان کی عورتوں کا شیوہ تھا۔ افسوس ! اب مسلم عورتوں نے کفار کی تقلید میں ہر وہ طریقہ اختیار کرلیا ہے جس سے وہ غیروں کی نظر میں خوش نما معلوم ہوں اور ان کے مردوں کی غیرت و حمیت بھی ایسی ختم ہوئی ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے برداشت کرتے ہیں، بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا : سورت کی ابتدا سے لے کر یہاں تک جو احکام بیان ہوئے ہیں، چونکہ ان کی پابندی میں کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، بلکہ ہر کام ہی میں خطا ہوجاتی ہے، اس لیے ”اے مومنو !“ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے اور گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا، یعنی تمہارے مومن ہونے کا تقاضا ہے کہ جو گناہ تم کرچکے یا آئندہ تم سے سرزد ہوں گے ان سے اللہ کی طرف توبہ کرو اور آئندہ بھی کرتے رہو۔ ”جَمِيْعًا“ کہہ کر مردوں اور عورتوں سب کو توبہ کا حکم دیا اور توبہ کے نتیجے میں فلاح و کامیابی کی بشارت دی۔ توبہ کے تین فرائض ہیں : 1 اس بات پر ندامت کہ میں نے اس گناہ کے ساتھ اللہ ذوالجلال والاکرام کی نافرمانی کی، اس پر نہیں کہ اس سے مجھے جسمانی یا مالی نقصان ہوا۔ 2 کسی تاخیر کے بغیر جتنی جلدی ممکن ہو اس گناہ سے باز آجانا۔ 3 اس بات کا عزم کہ آئندہ کبھی یہ گناہ نہیں کروں گا۔ اگر نفس کی شامت سے پھر گناہ ہوجائے تو پھر توبہ کرے۔ توبہ کے تین آداب ہیں : 1 گناہ کا نہایت عاجزی کے ساتھ اعتراف۔ 2 زیادہ سے زیادہ گڑ گڑا کر بخشش کی دعا کرنا۔ 3 گزشتہ گناہوں کو مٹانے کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکی کرنا۔ (التسہیل)
Top