Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ : اور چاہیے کہ بچے رہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے نِكَاحًا : نکاح حَتّٰى : یہانتک کہ يُغْنِيَهُمُ : انہیں گنی کردے اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَبْتَغُوْنَ : چاہتے ہوں الْكِتٰبَ : مکاتبت مِمَّا : ان میں سے جو مَلَكَتْ : مالک ہوں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) فَكَاتِبُوْهُمْ : تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو اِنْ عَلِمْتُمْ : اگر تم جانو (پاؤ) فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : بہتری وَّاٰتُوْهُمْ : اور تم ان کو دو مِّنْ : سے مَّالِ اللّٰهِ : اللہ کا مال الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا وَلَا تُكْرِهُوْا : اور تم نہ مجبور کرو فَتَيٰتِكُمْ : اپنی کنیزیں عَلَي الْبِغَآءِ : بدکاری پر اِنْ اَرَدْنَ : اگر وہ چاہیں تَحَصُّنًا : پاکدامن رہنا لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم حاصل کرلو عَرَضَ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَنْ : اور جو يُّكْرِھْهُّنَّ : انہیوں مجبور کرے گا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِكْرَاهِهِنَّ : ان کے مجبوری غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور لازم ہے کہ حرام سے بہت بچیں وہ لوگ جو کوئی نکاح نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور وہ لوگ جو مکاتبت (آزادی کی تحریر) طلب کرتے ہیں، ان میں سے جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ ہیں تو ان سے مکاتبت کرلو، اگر ان میں کچھ بھلائی معلوم کرو اور انھیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے، اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں، تاکہ تم دنیا کی زندگی کا سامان طلب کرو اور جو انھیں مجبور کرے گا تو یقینا اللہ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا : ”عَفَّ یَعِفُّ عَفَافًا وَ عِفَّۃً“ اس چیز سے باز رہنا جو حلال نہ ہو یا جمیل نہ ہو۔ ”اِسْتَعَفَّ“ اور ”تَعَفَّفَ“ کا بھی یہی معنی ہے۔ (القاموس) ”وَلْيَسْتَعْفِفِ“ میں حروف کے اضافے کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ”اور حرام سے بہت بچیں۔“ یعنی جو لوگ کسی وجہ سے نکاح نہ کرسکیں، مثلاً رشتہ نہ ملے، یا مہر میسر نہ ہو، یا غلام کو اس کا مالک نکاح کی اجازت نہ دے، یا کسی اور وجہ سے حالات سازگار نہ ہوں تو وہ حرام سے بچنے کی بہت زیادہ کوشش کریں، یعنی زنا، قوم لوط کے عمل اور استمنا بالید وغیرہ سے باز رہیں۔ اس کوشش میں نگاہ نیچی رکھنا، بلا اجازت دوسروں کے گھروں میں نہ جانا اور خیالات کو پاکیزہ رکھنا وغیرہ آداب شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انسان کی اس منہ زور قوت یعنی شہوت کی آفات سے محفوظ رہنے کے لیے نکاح کا حکم دیا اور جسے نکاح میسر نہ ہو اسے زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا : ”یہ اس کے لیے (شہوت) کچلنے کا باعث ہوگا۔“ [ دیکھیے بخاري : 1905 ] آپ ﷺ نے شہوت کو روزے کے ساتھ کچلنے کا حکم دیا، کیونکہ اس سے شہوت کمزور ہونے کے علاوہ ضبط نفس کی عادت بھی پڑتی ہے۔ بعض اوقات خیال ہوتا ہے کہ روزے سے تو شہوت قوی ہوئی ہے، یہ خیال فرض روزوں یا کبھی کبھار روزے کی حد تک تو صحیح ہے، کیونکہ جب صحت بہتر ہوتی ہے تو ہر قوت مضبوط ہوتی ہے، مگر مسلسل روزے رکھنے کا نتیجہ وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا اور آپ کے تجویز کردہ نسخے میں ضبط نفس کی عادت بھی ہے اور کوئی نقصان بھی نہیں، کیونکہ روزے چھوڑنے سے وہ قوت پھر بحال ہوجائے گی جو افزائش نسل اور زمین کی رونق کا ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص مسلسل دھنیا، یا کافور، یا پوٹاشیم برومائید، یا ایسی دوائیں استعمال کرے جن سے شہوت ختم ہوجائے تو اس کا نتیجہ نہایت نقصان دہ نکلتا ہے، کیونکہ دوائیں چھوڑنے کے باوجود بعض اوقات وہ قوت دوبارہ بحال ہی نہیں ہوتی، یہ ایک قسم کا خصی ہونا ہے، جو حرام ہے۔ حَتّٰى يُغْنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ : اس میں پاک دامن رہنے والوں کے لیے وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں غنی کرے گا اور ان کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ مومن کا اللہ کے وعدے پر یقین اس کے لیے انتظار کی مشقت کو آسان بنا دیتا ہے۔ (سعدی) عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال صد سال می تو اں بتمنا گریستن ”عرفی ! اگر رونے سے وصل کی دولت میسر ہوسکتی تو تمنا میں سو سال بھی رویا جاسکتا ہے۔“ وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ۔۔ : ”الْكِتٰبَ“ باب مفاعلہ کا مصدر ہے، جیسے ”قَاتَلَ یُقَاتِلُ مُقَاتَلَۃً وَ قِتَالًا“ ہے، یعنی غلام اور اس کے مالک کے درمیان آزادی کی تحریر کہ غلام اتنی رقم قسطوں میں فلاں مدت تک ادا کرے گا تو اسے آزادی مل جائے گی، اسے ”اَلْکِتَابُ“ ، ”اَلْکِتَابَۃُ“ یا ”اَلْمُکَاتَبَۃُ“ کہتے ہیں۔ پچھلی آیت میں مالکوں کو اپنے صالح غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرنے کا حکم دیا۔ ان کے نکاح میں دو بڑی رکاوٹیں ہوسکتی تھیں، ایک یہ کہ مالک انھیں نکاح کی اجازت نہ دے، دوسری یہ کہ وہ خود نکاح سے اجتناب کریں، کیونکہ غلام ہوتے ہوئے ان کے جتنے بچے پیدا ہوں گے، وہ ان کی طرح ان کے مالک کے غلام ہوں گے۔ ان دونوں رکاوٹوں کا حل یہ تھا کہ وہ آزادی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے مالک کے ساتھ مکاتبت کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے مالکوں کو مکاتبت کا تقاضا کرنے والے لونڈی اور غلاموں کے ساتھ مکاتبت کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکاتبت کا تقاضا کرنے والے غلاموں کے ساتھ مکاتبت سے انکار جائز نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے، اگر اس کے خلاف کوئی قرینہ نہ ہو۔ امام بخاری ؓ نے صحیح بخاری میں یہی آیت : (وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ۔۔) درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ میں نے عطاء (تابعی کبیر) سے کہا : ”کیا مجھ پر واجب ہے کہ میں اپنے غلام سے مکاتبت کروں، جب مجھے معلوم ہو کہ اس کے پاس مال ہے ؟“ تو انھوں نے فرمایا : ”میں تو اسے واجب ہی سمجھتا ہوں۔“ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا : ”کیا آپ یہ بات کسی سے نقل کرتے ہیں ؟“ انھوں نے فرمایا : ”نہیں۔“ پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ انھیں موسیٰ بن انس نے بیان کیا کہ (مشہور امام محمد بن سیرین کے والد) سیرین نے انس ؓ سے مکاتبت کا تقاضا کیا اور وہ بہت مال والا تھا، انس ؓ نے انکار کردیا تو سیرین، عمر ؓ کے پاس چلا گیا، انھوں نے فرمایا : ”اس سے مکاتبت کرو۔“ انس ؓ نے انکار کردیا تو عمر ؓ نے یہ آیت پڑھتے ہوئے انھیں درّے کے ساتھ مارا : (فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا) تو انس ؓ نے اس سے مکاتبت کرلی۔ [ بخاري، المکاتب، باب المکاتب و نجومہ۔۔ ، قبل ح : 2560 ] اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مالک غلام کے ساتھ مکاتبت کرنے سے انکار کر دے تو غلام عدالت میں جاسکتا ہے اور حاکم مالک کو مکاتبت پر مجبور کرے گا، جیسا کہ عمر ؓ کے درّے کے ساتھ مارنے سے ثابت ہوتا ہے۔ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا : بعض اہل علم نے خیر سے مراد مال لیا ہے، مگر ظاہر ہے کہ اس صورت میں ”إِنْ عَلِمْتُمْ لَھُمْ خَیْرًا“ ہونا چاہیے تھا، یعنی اگر تم ان کے پاس خیر کا علم رکھتے ہو، جبکہ یہاں الفاظ یہ ہیں کہ اگر تم ان میں خیر کا علم رکھتے ہو۔ اس لیے خیر کا مطلب یہ ہے کہ ان میں اتنی استعداد اور قوت و امانت ہو کہ وہ کمائی کرکے اپنی قیمت ادا کرسکتے ہوں، مکاتبت کو کچھ عرصہ کام سے جان چھڑانے کا بہانہ نہ بنا رہے ہوں اور آزاد ہونے کے بعد چوری یا خیانت کے بغیر اپنی روزی کما سکتے ہوں، تاکہ آزاد ہو کر گدائی نہ کرتے پھریں اور مسلم معاشرے پر بوجھ نہ بنیں۔ خیر میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نیک اور پاک باز ہوں، تاکہ آزاد ہو کر بدکاری اور چوری ڈاکے کا ارتکاب نہ کرتے پھریں۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ مالک کے لیے مکاتبت کا تقاضا قبول کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، کیونکہ یہ فیصلہ اس نے کرنا ہے کہ اس میں خیر ہے یا نہیں، پھر غلام اس کا مال ہے جو زبردستی اس سے لینا جائز نہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے مکاتبت قبول کرنے کا حکم دیا ہے تو اس غلام کا حکم عام مال والا نہیں ہوسکتا اور غلام کو حق حاصل ہے کہ اگر مالک خواہ مخواہ اس میں خیر نہ ہونے کا بہانہ بنا کر مکاتبت سے انکار کرتا ہے تو وہ اسلامی عدالت میں چلا جائے، جو سارے حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی کہ مالک کی بات درست ہے یا محض بہانہ ہے، جیسا کہ سیرین ؓ کے عمر ؓ کے پاس جانے سے ظاہر ہے۔ وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّال اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : یہ حکم مکاتب کے مالک کو بھی ہے کہ وہ طے شدہ رقم کا ایک حصہ اسے چھوڑ دے، یا جو کچھ اس سے لیا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ واپس کر دے اور عام مسلمانوں کو بھی کہ ایسے غلاموں کو مال دے کر انھیں آزادی حاصل کرنے میں تعاون کریں۔ تعاون کی ترغیب کے لیے ارشاد ہے کہ تم جو مال انھیں دو گے وہ اللہ ہی کا عطا کردہ ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دے رہا ہے کہ اس کے دیے ہوئے مال میں سے انھیں دو ، کیونکہ ایسے غلاموں کی مدد اس نے اپنے آپ پر حق قرار دی ہے۔ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (ثَلَاثَۃٌ حَقٌّ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ عَوْنُھُمُ الْمُکَاتَبُ الَّذِيْ یُرِیْدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاکِحُ الَّذِيْ یُرِیْدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاھِدُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) [ نساءي، النکاح، باب معونۃ اللہ الناکح الذي یرید العفاف : 3220۔ ترمذي : 1655، قال الترمذي والألباني حسن ] ”تین آدمیوں کی مدد اللہ پر حق ہے، وہ مکاتب جو ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ نکاح کرنے والا جو حرام سے بچنے کا ارادہ رکھتا ہے اور مجاہد فی سبیل اللہ۔“ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف میں غلاموں کی آزادی کو باقاعدہ ایک مصرف مقرر فرمایا ہے، فرمایا : (وَفِی الرِّقَابِ) [ التوبۃ : 60 ] یعنی گردنوں کو غلامی سے آزاد کرانے میں زکوٰۃ خرچ کی جائے۔ اس لیے اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیت المال میں سے مکاتب غلاموں کی رہائی کے لیے رقم خرچ کرے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ”فَکُّ رَقَبَةٍ“ (گردن چھڑانا) عمل صالح کی دشوار گھاٹی کو عبور کرنے کا حصہ ہے۔ دیکھیے سورة بلد (13)۔ مکاتب اپنی رہائی کے لیے لوگوں اور حکومت سے مالی امداد کی درخواست کرسکتا ہے، جیسا کہ بریرہ ؓ نے اپنی مکاتبت میں امداد کے لیے ام المومنین عائشہ ؓ سے درخواست کی اور انھوں نے پوری رقم یک مشت ادا کرکے انھیں خرید لیا اور آزاد کردیا۔ [ دیکھیے بخاري : 2168 ] 3 یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عہد نبوی میں غلام تین قسم کے تھے، ایک وہ جو اصل میں آزاد تھے، لیکن کسی نے اغوا کر کے یا زبردستی غلام بنا لیا، دوسرے وہ جو نسل در نسل غلام چلے آتے تھے اور تیسرے وہ جو جنگ میں گرفتار کرکے لونڈی یا غلام بنائے جاتے تھے۔ ان غلاموں کی خریدو فروخت ہوتی تھی اور مالک ان کی محنت کو اپنی آمدنی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ غلام ہوتے وہ اتنا ہی صاحب حیثیت سمجھا جاتا۔ اسلام نے جو غلام موجود تھے ان کی آزادی کے لیے ہر ممکن صورت اختیار فرمائی، مگر غلامی کو اس طرح ممنوع قرار نہیں دیا جس طرح شراب یا سود کو ممنوع قرار دیا اور نہ تمام غلام آزاد کرنے کا جبری حکم صادر فرمایا، بلکہ غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی، اس کا ثواب بیان فرمایا۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے : (مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَۃً مُؤْمِنَۃً أَعْتَقَ اللّٰہُ بِکُلِّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنَ النَّارِ حَتّٰی یُعْتِقَ فَرْجَہُ بِفَرْجِہِ) [ ترمذي، النذور و الأیمان، باب ما جاء في ثواب من أعتق رقبۃ : 1541، قال الترمذي حسن صحیح وقال الألباني صحیح ] ”جو شخص کوئی مومن گردن آزاد کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اس کا ایک عضو آزاد کرے گا، یہاں تک کہ اس کی شرم گاہ کے بدلے اس کی شرم گاہ کو آزاد کرے گا۔“ کئی کاموں کا کفارہ گردن آزاد کرنا مقرر فرمایا، مثلاً قسم، ظہار، قتل خطا اور فرض روزے کی حالت میں جماع کے کفارے میں ترجیح غلام آزاد کرنے کو دی۔ اس کے باوجود غلامی کو ممنوع اس لیے قرار نہیں دیا کہ قیامت تک جنگیں ہوتی رہیں گی اور قیدی بنتے رہیں گے۔ ایسے مواقع پر ایک غیر مسلم حکومت کے فوجی مفتوح قوم کی عورتوں پر جس طرح کی دست درازیاں کرتے اور ظلم و ستم ڈھاتے ہیں وہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ گزشتہ دونوں عالمگیر جنگوں میں بےبس قیدی عورتوں میں سے ایک ایک عورت سے جس طرح کئی کئی فوجیوں نے اپنی ہوس پوری کی اور جس درندگی کا ثبوت دیا وہ ان نام نہاد مہذب بھیڑیوں کے ماتھے پر لعنت کا بدترین داغ ہے۔ ان بیچاریوں کی صحت یا عزت یا اولاد کا ذمہ دار بننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا، جب کہ ہر ایک اپنی ہوس پوری کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے۔ اسلام نے ایسی فحاشی اور درندگی کو حرام قرار دیا اور لونڈیاں بنانے کی پاکیزہ راہ کھولی، جس میں اسیر عورت ایک شخص کی لونڈی ہوتی ہے، صرف اس کے لیے اس سے بیوی کی طرح فائدہ اٹھانا جائز ہوتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی اولاد بیوی سے پیدا ہونے والی اولاد کی طرح باپ کی وارث ہوتی ہے اور بچوں کی ماں بن جانے کی صورت میں وہ مالک کی وفات کے بعد خود بخود آزاد ہوجاتی ہے۔ اس کے وارث اسے آزاد کروانا چاہیں تو کسی حکومت سے معاملہ کرنے کے بجائے اس کے مالک سے لین دین کرکے آسانی کے ساتھ آزاد کروا سکتے ہیں۔ غرض اسلام کا غلامی کی اجازت دینا مردوں اور عورتوں کی پاکیزگی اور عفت کا ضامن ہے۔ کفار نے غلامی کو سرے سے ممنوع قرار دے کر قیدی بننے والے مردوں اور عورتوں پر کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ ظلم و ستم اور بدکاری و درندگی کا دروازہ کھولا ہے اور یہی کفر کا نتیجہ ہے، جب کہ اسلام عدل، رحم، پاکیزگی اور پاک دامنی کا ضامن ہے اور غلاموں اور لونڈیوں کی سہولت اور آسائش کا اہتمام کرتا ہے اور ہر ممکن طریقے سے انھیں آزادی دلانے کے راستے کھولتا ہے۔ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ۔۔ : ”الْبِغَاۗءِ“ کا معنی زنا ہے، مگر یہ لفظ صرف عورت کے زنا پر بولا جاتا ہے، کہا جاتا ہے : ”بَغَتْ ، تَبْغِيْ بِغَاءً ، فَھِيَ بَغِيٌّ وَ لِلْجَمَاعَۃِ بَغَایَا۔“ ”فَتَیَاتٌ“ ”فَتَاۃٌ“ کی جمع ہے، معنی اس کا جوان لڑکی ہے، جیسا کہ ”فَتًی“ کا معنی جوان لڑکا ہے۔ عام طور پر غلام اور لونڈی پر ”عَبْدٌ“ اور ”أَمَۃٌ“ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ) اس لیے غلام اور لونڈی پر ”عَبْدٌ“ اور ”أَمَۃٌ“ کا لفظ بولنا جائز ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ غلام کے لیے ”فَتًی“ اور لونڈی کے لیے ”فَتَاۃٌ“ کا لفظ بولا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (لَا یَقُلْ أَحَدُکُمْ عَبْدِيْ وَلَا أَمَتِيْ ، وَلْیَقُلْ فَتَايَ وَفَتَاتِيْ وَغُلاَمِيْ) [ بخاری، العتق، باب کراھیۃ التطاول علی الرقیق : 2552، عن أبي ہریرہ ؓ ] ”تم میں سے کوئی شخص ”عَبْدِيْ“ اور ”أَمَتِيْ“ نہ کہے، بلکہ ”فَتَايَ“ ، ”فَتَاتِيْ“ اور ”غُلَامِيْ“ کہے۔“ یہاں لونڈیوں کے لیے ”إِمَاءَکُمْ“ کے بجائے ”فَتَيٰتِكُمْ“ کا لفظ استعمال کرنے میں ان لونڈیوں کی فتوت (جواں مردی) کا بیان مقصود ہے کہ وہ لونڈیاں ہو کر بھی پاک دامن رہنا چاہتی ہیں۔ (بقاعی) یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں۔“ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ پاک دامن نہ رہنا چاہیں تو انھیں بدکاری پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اہل علم نے اس کا دو طرح سے جواب دیا ہے، ایک یہ کہ بدکاری پر مجبور اسی کو کیا جاتا ہے جو پاک دامن رہنا چاہے، جو پاک دامن رہنا ہی نہ چاہے اسے بدکاری پر مجبور کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کہا جائے اسے بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ لفظ ”اِنْ“ (اگر) یہاں شرط کے لیے نہیں بلکہ اس واقعہ کے بیان کے لیے ہے جس پر یہ آیت اتری۔ واقعہ یہ تھا کہ عبداللہ بن ابی اور اس قسم کے بدقماش اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرتے تھے، جب کہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی تھیں۔ چناچہ جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کی ایک لونڈی کا نام مسیکہ تھا اور دوسری کا نام امیمہ تھا، وہ انھیں بدکاری پر مجبور کرتا تھا، ان دونوں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ کے پاس کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيٰتِكُمْ عَلَي الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۭ وَمَنْ يُّكْرِھْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) [ مسلم، التفسیر، باب في قولہ تعالیٰ : (ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء) : 27؍3029 ] اس کی ایک مثال یہ آیت ہے : (وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ڰ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) [ النساء : 101 ] ”اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز کچھ کم کرلو، اگر ڈرو کہ تمہیں وہ لوگ فتنے میں ڈال دیں گے جنھوں نے کفر کیا۔“ یہاں خوف کا ذکر شرط کے لیے نہیں بلکہ اس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے جس موقع پر یہ آیت اتری تھی۔ یہ دوسرا جواب پہلے کی بہ نسبت زیادہ صحیح ہے، کیونکہ لونڈیاں پاک دامن نہ بھی رہنا چاہیں تو ضروری نہیں کہ وہ اس شخص سے زنا پر بھی راضی ہوں جس پر ان کا مالک انھیں مجبور کر رہا ہے۔ لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر دنیا کا مال طلب کرنا مقصود نہ ہو تو لونڈیوں سے زنا کروایا جاسکتا ہے، بلکہ یہ بھی بیان واقعہ کے لیے ہے کہ یہ کام کرنے والوں کا مقصد دنیا کے سازو سامان کی طلب تھا۔ چناچہ صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن ابی اپنی ایک لونڈی سے کہا کرتا تھا کہ جاؤ اور ہمارے لیے کچھ تلاش کرکے لاؤ، تو اس پر یہ آیت اتری۔ [ دیکھیے مسلم : 3029 ] رسول اللہ ﷺ نے عورت کی بدکاری کی کمائی سے منع فرمایا، ابومسعود انصاری ؓ فرماتے ہیں : ”رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت، زانیہ کی آمدنی اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔“ [ بخاري، البیوع، باب ثمن الکلب : 2237 ] ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (لَا یَحِلُّ ثَمَنُ الْکَلْبِ وَلَا حُلْوَانُ الْکَاھِنِ وَلَا مَھْرُ الْبَغِيِّ) [ نساءي، الصید والذبائح، باب النھي عن ثمن الکلب : 4298 ] ”نہ کتے کی قیمت حلال ہے، نہ کاہن کی شیرینی اور نہ زانیہ کی آمدنی۔“ وَمَنْ يُّكْرِھْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : زنا ایک ایسا فعل ہے کہ مجبور ہو کر کرنے سے بھی نفس کی لذت کا دخل اس میں ہو ہی جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لونڈیوں کو مجبور کیے جانے کے بعد ان کی گناہ میں شرکت پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے غفور و رحیم ہے، ان کا گناہ مجبور کرنے والوں پر ہے۔ علی بن ابی طلحہ کی روایت سے ابن عباس ؓ کی تفسیر یہی ہے اور یہی ظاہر بھی ہے اور راجح بھی۔ تفسیر سعدی میں ہے : ”اس آیت میں لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرنے والوں کو توبہ کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ بھی اگر توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے مجبور کرنے کے گناہ کے بعد بھی غفور و رحیم ہے، اس لیے انھیں چاہیے کہ اللہ کی جناب میں توبہ کریں اور آئندہ اس جرم سے باز آجائیں۔“ اس آیت کے علاوہ اللہ کی رحمت کی ایک جھلک اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ) [ البروج : 10 ] ”یقیناً وہ لوگ جنھوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آزمائش میں ڈالا، پھر انھوں نے توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔“ کوئی حد ہے اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت و رحمت کی کہ اس کے دوستوں کو آگ میں جلا کر تماشا دیکھنے والوں کے لیے بھی جہنم کے عذاب کی وعید تب ہے جب انھوں نے توبہ نہ کی ہو۔
Top