Al-Quran-al-Kareem - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے، جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا چمکتا ہوا تارا ہے، وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : ”اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے“ یعنی آسمان و زمین جو روشن ہیں تو اللہ کے نور ہی سے روشن ہیں۔ وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہ ہو۔ شاہ عبد القادر ؓ لکھتے ہیں : ”یعنی اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین اور آسمان کی۔ اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہوجائیں۔“ یاد رہے، یہاں اللہ کے آسمان و زمین کا نور ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور آسمان و زمین کا نور ہے اور اسے روشن کرنے والا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور نور کی مثال بیان کی گئی ہے، جب کہ اللہ کی کوئی مثال ہے ہی نہیں، جیسا کہ فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ) [ الشورٰی : 11 ] ”اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔“ دوسری دلیل یہ کہ اس آیت میں اس نور کا ذکر ہے جس سے آسمان و زمین روشن ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نور حجاب کے پیچھے ہے۔ ابوموسیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں بیان فرمائیں، آپ نے فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا یَنَامُ وَلَا یَنْبَغِيْ لَہُ أَنْ یَّنَامَ ، یَخْفِضُ الْقِسْطَ وَ یَرْفَعُہُ ، یُرْفَعُ إِلَیْہِ عَمَلُ اللَّیْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّھَارِ وَ عَمَلُ النَّھَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّیْلِ ، حِجَابُہُ النُّوْرُ ، لَوْ کَشَفَہُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْھِہِ مَا انْتَھَی إِلَیْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہِ) [ مسلم، الإیمان، باب في قولہ ؑ ”إن اللہ لا ینام“۔۔ : 179 ] ”اللہ عزوجل سوتا نہیں اور اس کے لائق ہی نہیں کہ وہ سوئے، وہ ترازو کو نیچا کرتا ہے اور اسے اونچا کرتا ہے، رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اس کی طرف اوپر لے جایا جاتا ہے اور اس کا حجاب نور ہے، اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کی شعاعیں اس کی مخلوق میں سے ہر اس چیز کو جلا دیں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔“ 3 اس آیت میں ”نُور“ کا معنی ”ذُوْ نُوْرٍ“ ہے، یعنی روشن کرنے والا، جیسا کہ ”زَیْدٌ عَدْلٌ“ کا معنی یہ نہیں کہ زید عدل و انصاف ہے، بلکہ اس کا معنی ہے کہ زید عدل و انصاف والا ہے۔ بعض مفسرین نے یہی مفہوم ان الفاظ میں ادا فرمایا : (َللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) یعنی اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو روشن فرمایا۔ (نقلہ ابن کثیر عن ضحاک) آسمانوں اور زمین سے سارا جہان مراد ہے، یعنی کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ نور سے روشن ہے۔ یہ نور حسی بھی ہے اور معنوی بھی۔ حسی کی کئی قسمیں ہیں، ایک وہ نور جو خود روشن ہے اور دوسروں کو روشن کرتا ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے، بجلی، آگ، ہر قسم کے چراغ، جگنو اور ہر وہ حیوان یا درخت جس سے روشنی نکلتی ہے، یہ سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ ایک وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے حسن یا توانائی کی کسی نہ کسی شکل میں کائنات کے ہر ذرّے میں ودیعت کر رکھا ہے، مثلاً چہرے کا حسن چہرے کا نور کہلاتا ہے، گھر کے افراد گھر کا نور ہوتے ہیں، گلے کا نور آواز کی صورت میں روشنی بکھیرتا ہے، زبان کا نور بولنے سے ظاہر ہوتا ہے، ہر عضو کی توانائی اس کا نور ہے۔ سمندر، پہاڑ، درخت، صحرا غرض ہر چیز کا حسن و جمال اور ان کے منافع اللہ کا نور ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ نور کی ایک قسم ہر عضو کی وہ استعداد ہے جس سے حیوان یا انسان کائنات میں پھیلے ہوئے نور کا ادراک کرتا ہے، مثلاً آنکھ میں بینائی کا نور ہے، یہ نہ ہو تو نہ سورج چاند یا کوئی روشنی نظر آئے، نہ اس سے روشن کائنات کے ذرّے ذرّے میں پھیلا ہوا حسن نظر آئے، اس لیے نابینے آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں نور نہیں۔ کان کا نور اس کے سننے کی قوت ہے۔ اسی طرح چھونے، چکھنے، سونگھنے کی قوتیں ان اعضا کا نور ہیں جن میں یہ رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح بھوک پیاس، جنسی اشتہا، غرض بیشمار استعدادات ہیں جو اپنے اپنے متعلقہ عضو کا نور ہیں۔ شاہ عبد القادر ؓ نے کیا خوب خلاصہ نکالا ہے جو اوپر گزرا کہ اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین و آسمان کی، اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہوجائیں۔ معنوی نور کی بھی کئی قسمیں ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جس سے ضلالت کے اندھیرے ختم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا یہ نور پیغمبروں کے ذریعے سے نازل فرمایا، اللہ نے فرمایا : (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا) [ النساء : 174 ] ”اے لوگو ! بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک واضح نور نازل کیا ہے۔“ اور فرمایا : (هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖٓ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) [ الحدید : 9 ] ”وہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات اتارتا ہے، تاکہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر یقیناً بیحد نرمی کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ اور فرمایا : (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ) [ البقرۃ : 257 ] ”اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔“ اور فرمایا : (قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ) [ المائدۃ : 15 ] ”بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔“ مزید دیکھے سورة انعام (122) اور سورة شوریٰ (52)۔ اس معنوی نور کی دوسری قسم حق کو پہچاننے اور قبول کرنے کی وہ استعداد ہے جو مومن کے دل میں ہوتی ہے، جو شروع ہی سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں رکھ دی ہے، مگر بعض اوقات وہ ماحول کے اثر یا اپنی بدعملی کی وجہ سے اس سے محروم ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہِ أَوْ یُنَصِّرَانِہِ أَوْ یُمَجِّسَانِہِ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیْمَۃُ بَھِیْمَۃً جَمْعَاءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِیْھَا مِنْ جَدْعَاءَ ؟) [ بخاري، تفسیر سورة الروم، باب لا تبدیل لخلق اللہ : 4775، عن أبي ہریرہ ؓ ] ”پیدا ہونے والا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں، یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے چوپایہ پیدا ہوتا ہے تو پورے اعضا والا ہوتا ہے، کیا تم ان میں سے کوئی کان کٹا یا ناک کٹا دیکھتے ہو (یعنی اس کا کان یا ناک بعد میں لوگ کاٹتے ہیں)۔“ ہدایت کا یہ نور اگر کسی دل میں نہ ہو تو جتنے بھی انبیاء آجائیں یا جتنی بھی آیات الٰہی نازل ہوں دل کے اندھے کو ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور اگر یہ نور آنکھوں یا کانوں میں نہ ہو تو تمام معجزے اور ہر وعظ و نصیحت بےکار ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا) [ الأعراف : 179 ] ”ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں۔“ مطلب ساری آیت کا یہ ہے کہ کائنات کی ساری رونق اور آبادی اللہ تعالیٰ کے فیض سے ہے، وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہ رہ جائے، نور کے تمام ذرائع مثلاً سورج چاند وغیرہ، ان سے روشن ہونے والی کائنات اور ان کا ادراک کرنے والا نور اسی کا پیدا کردہ ہے، اسی طرح ایمان کا نور بھی اسی کا عطا کردہ ہے، اسی نے وحی بھیجی، پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اور دلوں میں انھیں قبول کرنے کا نور رکھا۔ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ میں اگرچہ حسی و معنوی تمام نور داخل ہیں اور سب ہی اللہ کے عطا کردہ ہیں، مگر زیر تفسیر آیت میں مراد ہدایت کا نور ہے کہ وہ صرف اللہ کی عطا ہے، اس کا ایک قرینہ اس سے پہلی آیت ہے، جس میں ”اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ“ اور گزشتہ اقوام کے کچھ حالات اور متقین کے لیے نصیحت نازل کرنے کا ذکر ہے اور ایک قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ ”يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ“ اور تیسرا قرینہ اس سلسلہ کلام کی آخری آیت کا اختتام ہے، فرمایا : (وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ) [ النور : 40 ] ”اور وہ شخص جس کے لیے اللہ کوئی نور نہ بنائے تو اس کے لیے کوئی بھی نور نہیں۔“ اس لیے ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس ؓ سے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ یہ تفسیر آئی ہے کہ انھوں نے فرمایا : ”(اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ) یَقُوْلُ : اللّٰہُ سُبْحَانَہُ ھَادِيْ أَھْلِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ“ [ طبري : 26292 ]”اللہ تعالیٰ کے فرمان ”اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ“ کا معنی یہ ہے کہ اللہ سبحانہ آسمانوں اور زمین والوں کو ہدایت دینے والا ہے۔“ شیخ المفسرین طبری نے یہی تفسیر اختیار کی ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے یہ تفسیر ذکر کرکے اسے قائم رکھا ہے، مگر ساتھ ہی فرمایا ہے کہ یہ تفسیر نور کی دوسری انواع کو اس کی تفسیر میں داخل کرنے سے مانع نہیں ہے۔ (تفسیر سورة النور از ابن تیمیہ) ابن کثیر نے بھی یہی تفسیر فرمائی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسے فرمایا : (اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ) [ الزمر : 22 ] ”تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے سو وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر ہے۔“ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ۔۔ : ”مِشْکَاۃٌ“ دیوار میں طاق جو دیوار کے آر پار نہ ہو، ”زُجَاجَةٍ“ شیشے کا فانوس۔ ”دُرِّيٌّ“ ”دُرٌّ“ کے ساتھ یاء نسبت لگانے سے ”دُرِّيٌّ“ بن گیا، موتی کی طرح چمکتا ہوا۔ ”لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ“ کے الفاظ سے زیتون کے اس تیل کی عمدگی اور شفافیت بیان کرنا مقصود ہے۔ اہل علم سے اس کی دو تفسیریں آئی ہیں، ایک یہ کہ وہ تیل زیتون کے ایسے درخت سے حاصل ہوا ہے جو نہ مشرقی ہے کہ اس کے مغرب میں کوئی پہاڑ یا اوٹ ہو، جس کی وجہ سے اس پر صرف دن کے پہلے پہر کی دھوپ پڑتی ہو اور نہ مغربی ہے کہ اس کے مشرق میں کوئی پہاڑ یا اوٹ ہو جس کی وجہ سے اس پر صرف دن کے پچھلے پہر کی دھوپ پڑتی ہو، بلکہ وہ درخت کھلی جگہ میں ہے جس پر سارا دن سورج کی دھوپ پڑتی ہے، ایسے درخت کا تیل زیادہ صاف اور عمدہ ہوتا ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ زیتون کا وہ درخت نہ مشرق کی جانب ہے نہ مغرب کی طرف، بلکہ دوسرے درختوں کے عین درمیان واقع ہے، جس پر صرف جنوب کی طرف سے سورج کی دھوپ پڑتی ہے۔ درختوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وہ سورج کی مسلسل تپش سے محفوظ رہتا ہے، جس سے اس کے پھل کی رطوبت پوری طرح محفوظ رہتی ہے۔ دونوں تفسیریں سلف سے مروی ہیں، دوسری تفسیر ابی بن کعب ؓ سے معتبر سند کے ساتھ طبری نے نقل فرمائی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ”اور زیتون نہ شرق کا نہ غرب کا، یعنی باغ کے بیچ کا، نہ صبح کی دھوپ کھاوے نہ شام کی، خوب ہرا اور چکنا رہے۔“ مَثَلُ نُوْرِهٖ“ یعنی ”اس کے نور کی مثال“ سے مراد کس کے نور کی مثال ہے اور مثال کس طرح ہے ؟ میں نے جتنی تفسیریں دیکھی ہیں سب سے واضح تفسیر ترجمان القرآن ابن عباس ؓ کی ہے، جو طبری نے علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس ؓ کی معتبر سند کے ساتھ نقل کی ہے، وہ فرماتے ہیں : (ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ) قَالَ مَثَلُ ھَدَاہُ فِيْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ کَمَا یَکَاد الزَّیْتُ الصَّافِيْ یُضِيْءُ قَبْلَ أَنْ تَمَسَّہُ النَّارُ فَإِذَا مَسَّتْہُ النَّارُ ازْدَادَ ضَوْءًا عَلٰی ضَوْءٍ کَذٰلِکَ یَکُوْنُ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ یَعْمَلُ بالْھُدٰی قَبْلَ أَنْ یَّأْتِیَہُ الْعِلْمُ فَإِذَا جَاءَ ہُ الْعِلْمُ ازْدَادَ ھُدًی عَلٰی ھُدًی وَ نُوْرًا عَلٰی نُوْرٍ) [ طبري : 26313 ] ”اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے“ فرمایا : ”مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی مثال اس طرح ہے جیسے صاف زیتون کا تیل، قریب ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ہی روشن ہوجائے کہ اسے آگ چھوئے، پھر جب اسے آگ چھوتی ہے تو وہ روشنی پر روشنی میں بڑھ جاتا ہے، ایسے ہی مومن کا دل ہے کہ اس سے پہلے ہی ہدایت پر عمل کرنے والا ہوتا ہے کہ اس کے پاس علم آئے، پھر جب اس کے پاس علم آتا ہے تو وہ ہدایت پر ہدایت میں بڑھ جاتا ہے اور نور پر نور میں بڑھ جاتا ہے۔“ 3 آیت میں مومن کے دل میں اللہ کی ہدایت کے نور کو مثال دے کر زیادہ سے زیادہ روشن بیان کرنا مقصود ہے، اس کے لیے اسے ایسے چراغ کی روشنی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو آیت کے نزول کے وقت رات کے اندھیرے میں روشنی کے لیے انسانی استعمال میں آنے والی سب سے روشن چیز تھی اور اس کی روشنی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے جو اسباب و ذرائع ہوسکتے تھے وہ بھی ساتھ ذکر فرمائے۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ چراغ ایک طاق میں ہے، طاق میں ہونے کی وجہ سے اس کی شعائیں مجتمع ہو کر زیادہ روشنی کا باعث بنتی ہیں، اگر وہ کسی کھلی جگہ میں ہوتا تو اس کی شعائیں بکھر جاتیں۔ دوسری چیز اس کی روشنی کو بڑھانے والی یہ ہے کہ وہ چراغ شیشے کے ایک فانوس میں ہے، جس سے وہ ہوا کے تھپیڑوں سے محفوظ ہے اور فانوس کی وجہ سے اس کی روشنی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ تیسری چیز یہ کہ وہ فانوس عام شیشے کا بنا ہوا نہیں کہ روشنی میں معمولی اضافے کا باعث ہو، بلکہ اتنا شفاف اور چمک دار ہے جیسے کوئی چمکتا ہوا تارا ہو۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ وہ چراغ کسی عام تیل سے روشن نہیں کیا جا رہا، بلکہ تیل کی تمام قسموں میں سے جو تیل سب سے شفاف، سب سے زیادہ روشنی دینے والا اور سب سے کم دھواں دینے والا ہے وہ اس کے ساتھ روشن کیا جا رہا ہے، جو روغن زیتون ہے۔ پانچویں چیز یہ ہے کہ زیتون کا وہ تیل ردی یا خراب قسم کا نہیں کہ ایسے پھلوں سے نکالا گیا ہو جو نکمے اور خشک ہوں، بلکہ ایسے درخت کے پھلوں سے نکالا گیا ہے جو نہایت سرسبز و شاداب ہے اور جس کے پھل صاف روغن سے بھرپور ہیں۔ چھٹی چیز یہ کہ وہ تیل اتنا شفاف ہے کہ آگ لگائے بغیر بھی ایسے دکھائی دیتا ہے کہ ابھی اس سے روشنی پھوٹنے لگے گی۔ نور پر نور یعنی نور کو جس طرح بھی بڑھایا جاسکتا ہے اسی طرح اسے زیادہ سے زیادہ روشن کیا گیا ہے۔ اس میں جس کو تشبیہ دی گئی ہے وہ مومن کے دل میں اللہ کی ہدایت کا نور ہے اور جس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے وہ ایسے چراغ کی روشنی ہے جس میں ہر اس طریقے سے اضافہ کیا گیا ہے جس سے اضافہ ہوسکتا ہے، یعنی تشبیہ ایک چیز سے نہیں بلکہ اس چراغ کی مجموعی صورت سے ہے، اسے تشبیہ تمثیل کہتے ہیں۔ اس میں مشبّہ کی ایک ایک چیز کی تشبیہ مشبّہ بہ کی ایک ایک چیز کے ساتھ نہیں دی جاتی، بلکہ مشبّہ کی مجموعی صورت کی تشبیہ مشبّہ بہ کی مجموعی صورت کے ساتھ دی جاتی ہے۔ ابن عباس ؓ کی تفسیر کا انداز یہی ہے، البتہ بعض اہل علم نے مشبّہ کے اجزا کو مشبّہ بہ کے ایک ایک جز سے تشبیہ دی ہے۔ چناچہ طبری (26310) نے معتبر سند کے ساتھ ابو العالیہ سے ابی بن کعب ؓ کی تفسیر نقل فرمائی ہے، ان کے مطابق طاق سے مراد مومن کا سینہ ہے، فانوس سے مراد مومن کا دل ہے، چراغ وہ ایمان اور قرآن ہے جو مومن کے دل میں ہے۔ ستارے کی طرح چراغ کے روشن ہونے سے مراد مومن کے دل کا نور ایمان سے منور ہونا ہے۔ شجرہ مبارکہ سے اس چراغ کے روشن ہونے سے مراد اس کا اللہ وحدہ کے لیے اخلاص اور اس کی عبادت سے روشن ہونا ہے۔ ”لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ“ سے مراد ایسے درخت سے تشبیہ ہے جو گھنے درختوں کے درمیان گھرا ہوا ہے، چناچہ وہ نہایت سبز اور چکنا ہے، اسے شدید دھوپ نہیں پہنچتی، نہ سورج کے طلوع ہوتے وقت نہ غروب ہوتے وقت، اسی طرح مومن کا دل اس سے محفوظ ہے کہ اسے مختلف حالات نقصان پہنچائیں، اگر وہ ایسے انقلابات کی زد میں آتا بھی ہے تو اللہ اسے ثابت رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک جلیل القدر صحابی کی تفسیر ہے، جو سید القراء تھے۔ ”نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ“ یعنی وہ نور تہ بہ تہ ہے اور اسے قوت دینے والی اور زیادہ روشن کرنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہی جس نے اسے مزید روشن نہ کیا ہو۔ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جب اللہ کے نور ہدایت سے آسمان و زمین روشن ہیں، تو کافر اس سے کیوں محروم ہیں اور عائشہ صدیقہ ؓ کی اظہر من الشمس براءت کے باوجود ان پر بہتان لگانے والے اس سے اندھے کیوں رہے ؟ فرمایا، اللہ اس نور کا مالک ہے، وہ اپنی چیز جسے چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، اگر وہ کسی کو بھی نہ دے تو ظالم نہیں، مگر یہ اس کا کرم ہے کہ جو ہدایت کے قابل ہو اسے ضرور ہدایت دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ) [ القصص : 56 ] ”بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔“ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَال للنَّاسِ : یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے حسب حال مثالیں بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید میں تقریباً ہر اہم مسئلے کے ساتھ کوئی نہ کوئی مثال بیان ہوئی ہے، کیوں کہ اس سے بات خوب ذہن نشین ہوجاتی ہے۔ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ : اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، جس میں سے یہ بھی ہے کہ کس بات کے لیے کون سی مثال موزوں ہے اور ہدایت کے لائق کون ہے اور کون نہیں۔
Top