Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ابراہیم کو جب اس نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
وَاِبْرٰهِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ۔۔ :”ابراھیم“ کا عطف ”نوحا“ پر ہے اور یہ ”ارسلنا“ کا مفعول ہے، یعنی ”اور ہم نے ابراہیم کو بھیجا۔“ بعض مفسرین نے اسے ”اُذْکُرْ“ کا مفعول بنایا ہے کہ ابراہیم کو یاد کر۔ اگرچہ یہ بھی ہوسکتا ہے، مگر آگے آیت (36) میں ”وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا“ سے ظاہر ہے کہ راجح یہی ہے کہ یہ ”ارسلنا“ کا مفعول ہے۔ ابراہیم ؑ کے واقعہ کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (رکوع 15، 16 اور 35) ، آل عمران (رکوع 7) ، انعام (رکوع 9) ، ہود (رکوع 7) ، ابراہیم (رکوع 6) ، حجر (رکوع 4) ، مریم (رکوع 3) ، انبیاء (رکوع 5) ، شعراء (5) ، صافات (رکوع 3) ، زخرف (رکوع 3) اور ذاریات (رکوع 2)۔ 3 نوح ؑ کے بعد ابراہیم ؑ کا ذکر فرمایا، کیونکہ ان کی آزمائش بھی بہت بڑی تھی، انھیں آگ میں پھینک دیا گیا، ہجرت کرنا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں کئی باتوں کے ساتھ آزمایا اور وہ سب میں پورے اترے۔ (دیکھیے بقرہ : 124) ان آزمائشوں میں بہت بڑی آزمائش اس قوم کو توحید کی دعوت دینا تھی جو بت پرست تھی۔ ابراہیم ؑ نے انھیں حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو، یعنی اس بات سے ڈرو کہ اگر تم نے اس کی عبادت نہ کی، اس کا حکم نہ مانا یا کسی غیر کو اس کا شریک بنایا تو وہ تمہیں عذاب دے گا۔ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : ”خیر“ اصل میں ”أَخْیَرُ“ ہے جو اسم تفضیل کا صیغہ ہے، زیادہ اچھا، مگر یہاں تفضیل کا معنی مراد نہیں، کیونکہ توحید شرک سے زیادہ اچھی نہیں بلکہ توحید ہی اچھی ہے، شرک میں کسی طرح کی کوئی اچھائی نہیں۔ (سعدی) یا یہ مطلب ہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اور تمہارے خیال میں اس میں کسی قسم کی خیر ہے، لیکن اللہ کی عبادت اور اسی سے ڈرنا ہر حال میں اس سے کہیں اچھا ہے (اگرچہ فی الواقع بتوں کی عبادت میں کوئی خیر نہیں)۔ (آلوسی) اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یعنی اگر تمہیں کچھ بھی علم ہو۔ معلوم ہوا شرک میں وہی گرفتار ہوتا ہے جو علم سے بالکل محروم ہوتا ہے۔
Top