Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 26
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ١ۘ وَ قَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
فَاٰمَنَ : پس ایمان لایا لَهٗ : اس پر لُوْطٌ : لوط وَقَالَ : اور اس نے کہا اِنِّىْ : بیشک میں مُهَاجِرٌ : ہجرت کرنیوالا اِلٰى رَبِّيْ : اپنے رب کی طرف اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ الْعَزِيْزُ : زبردست غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
تو لوط اس پر ایمان لے آیا اور اس نے کہا بیشک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں، یقینا وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ : ابراہیم ؑ جب آگ سے صحیح سلامت باہر آئے اور انھوں نے یہ نصیحت کی تو لوط ؑ فوراً ہی ان پر ایمان لے آئے اور ان کے تابع فرمان ہوگئے، ان کے سوا کوئی اور ان پر ایمان نہیں لایا۔ فوراً کا مفہوم ”فاء“ سے نکل رہا ہے۔ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ عام طور پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ”آمَنَ بِہِ“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ”آمَنَ لَہُ“ کا لفظ کسی کی بات کا اعتبار اور یقین کرنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے کہا تھا : (وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ) [ یوسف : 17 ] ”اور تو ہرگز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔“ تو یہاں ”آمَنَ لَہُ“ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے تو یہ دیا ہے کہ ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ”امَنَ بِہِ“ اور ”آمَنَ لَہُ“ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ جادوگروں کے ایمان لانے پر فرعون کا قول اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ ”امنتم لہ“ نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : 71) اور بعض جگہ ”امنتم بہ“ (دیکھیے اعراف : 123)۔ اس لیے ”آمَنَ بِہِ“ اور ”آمَنَ لَہُ“ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ابن جزی صاحب التسہیل نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں ”آمَنَ“ کے ضمن میں ”اِنْقَادَ“ (مطیع ہوگیا) کا مفہوم داخل ہے، اس لیے اس کا صلہ ”لَہُ“ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ”تو اسی وقت لوط اس کے لیے تابع فرمان ہوگیا۔“ مفسرین میں سے بعض نے لوط ؑ کو ابراہیم کا بھانجا اور اکثر نے بھتیجا بیان کیا ہے، قابل یقین دلیل کسی نے بھی ذکر نہیں فرمائی، البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ لوط ؑ ان کی قوم اور ان کے شہر کے آدمی تھے۔rnۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ۔۔ : ابراہیم ؑ نے جب دیکھا کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی پوری قوم میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا ہے تو ان سے ناامید ہو کر وہاں سے نکل پڑے، ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور لوط ؑ بھی تھے، کچھ خبر نہ تھی کہاں جانا ہے، اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگے، میں تو وطن چھوڑ کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔ وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، وہی میری حفاظت کرے گا، مجھے غلبہ عطا کرے گا اور جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا مجھے لے جائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی قوم سے نجات دلا کر اپنی حفاظت میں خیریت اور سلامتی کے ساتھ سرزمین شام میں پہنچا دیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ) [ الأنبیاء : 71] ”اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سر زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی ہے۔“ قرآن مجید میں ارض مبارک سے مراد شام کی زمین ہوتی ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : 1) ان کے ہجرت کر جانے کے بعد قوم پر جو گزری اس کے لیے سورة انبیاء کی آیات (74، 75) کے حواشی دیکھیے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم ؑ کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا، اس پر بھی جب یہ لوگ سرکشی سے باز نہ آئے تو ان پر مچھروں کا عذاب نازل ہوا۔ یہ مچھر ان لوگوں کا تو سب خون پی گئے، گوشت اور چربی سب کھا گئے، خالی ہڈیاں زمین پر گرپڑیں، مگر نمرود کے دماغ میں ایک مچھر چڑھ گیا جس کے سبب سے اس کے سر پر ایک مدت تک مار پڑتی رہی، اس ذلت کے بعد پھر وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ طبری نے یہ بات تابعی زید بن اسلم کے قول سے نقل کی ہے، جس کا اسرائیلی روایت ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس پر کسی صورت یقین نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اسے قرآن کی تفسیر میں بیان کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ”لا ریب کتاب“ کی تفسیر بھی ”لا ریب“ ذریعے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ اس حکایت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے کئی واعظ کئی سال تک اس مچھر کی وجہ سے نمرود کے سر پر جوتے مرواتے رہتے ہیں، حالانکہ مچھر بےچارے کی کل عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ مسلمان واعظین کی عجائب پسندی نے اس بات کو ایک مسلّمہ حقیقت بنادیا ہے۔
Top