Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 7
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : اور انہوں نے اچھے عمل کیے لَنُكَفِّرَنَّ : البتہ ہم ضرور دور کردیں گے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ : اور ہم ضرور جزا دیں گے انہیں اَحْسَنَ : زیادہ بہتر الَّذِيْ : وہ جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے یقینا ہم ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کردیں گے اور یقینا انھیں اس عمل کی بہترین جزا ضرور دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَـيِّاٰتِهِمْ : یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، آزمائش پر ثابت قدم رہے، مشرکین کی ایذا سے متزلزل نہیں ہوئے، پھر صالح اعمال کرتے رہے، اپنے اور اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے جہاد کرتے رہے تو ہم ان کی برائیاں ضرور دور کردیں گے، ایمان لانے کی برکت سے پچھلے تمام گناہ معاف کردیں گے، پھر اعمال میں سے ہجرت سے پہلے کے تمام گناہ معاف کردیں گے اور حج سے پہلے کے تمام گناہ معاف کردیں گے۔ عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل کیا تو میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا : ”اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیں، تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔“ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا، کہتے ہیں، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو آپ نے فرمایا : ”عمرو ! تمہیں کیا ہوا ؟“ میں نے کہا : ”میں چاہتا ہوں کہ شرط کرلوں۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”کس چیز کی شرط کرو گے ؟“ میں نے کہا : ”اس بات کی کہ مجھے بخش دیا جائے۔“ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الإِْسْلاَمَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ؟ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا ؟ وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ؟) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ۔۔ : 121 ] ”کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتا ہے ؟ اور ہجرت اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتی ہے ؟ اور حج اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتا ہے ؟“ پھر توبہ سے گزشتہ گناہ معاف ہی نہیں ہوتے بلکہ نیکیوں میں بدل دیے جاتے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فرقان کی آیت (70) کی تفسیر۔ اس کے علاوہ وضو، نماز، روزہ، صدقہ اور جہاد غرض ہر نیکی گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ہود کی آیت (114)۔ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اسے اچھی جزا دی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہوگا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی۔ کفر کی حالت میں جو نیک اعمال کیے تھے مسلمان ہونے کے بعد ان کی جزا بھی ملے گی۔ حکیم بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : ”یا رسول اللہ ! یہ بتائیں کہ وہ کام جو میں جاہلیت میں ثواب سمجھ کر کرتا تھا، یعنی صلہ رحمی، غلام آزاد کرنا اور صدقہ، تو کیا میرے لیے ان میں اجر ہے ؟“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ لَکَ مِنْ خَیْرٍِ) [ بخاري، البیوع، باب شراء المملوک من الحربي و ھبتہ و عتقہ : 2220 ] ”تم اس تمام نیکی سمیت مسلمان ہوئے ہو جو اس سے پہلے تم نے کی۔“ پھر ایمان لانے کے بعد ہر نیکی کا بدلا دس گنا سے لے کر سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ تک بلکہ بلا حساب دیا جائے گا۔ دیکھیے سورة نساء (40) ، انعام (160) ، قصص (84) ، بقرہ (261) ، زمر (10) اور مومن (40)۔ 3 رازی نے بہتر بدلے کے متعلق ایک نفیس نکتہ بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آدمی کے اعمال یا تو دل سے تعلق رکھتے ہیں، یا آنکھ سے نظر آتے ہیں، یا کان کے ساتھ سنائی دیتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان اعمال کے بدلے میں جو آنکھوں سے نظر آتے ہیں وہ نعمتیں دے گا ”مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ“ (جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں) اور کان سے سنائی دینے والے اعمال کے بدلے میں وہ نعمتیں دے گا ”وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ“ (جو کسی کان نے نہیں سنیں) اور دل کے ایمان اور حسن اعتقاد کے بدلے میں وہ نعمتیں دے گا ”وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ“ (جن کا خیال تک کسی بشر کے دل میں نہیں آیا)۔ ایمان اور عمل صالح کی اس سے بہتر جزا کیا ہوسکتی ہے۔
Top