Al-Quran-al-Kareem - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ بیشک ہم نے اسے ایک قطرے سے پیدا کیا تو اچانک وہ کھلا جھگڑنے والا ہے۔
اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ : یہاں سے سورت کے آخر تک کفار کے اس انکار کا دلیل کے ساتھ جواب ہے جو وہ قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے سوال کی صورت میں کرتے تھے کہ ”مَتٰى ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ“ قیامت کا وعدہ کب پورا ہوگا ؟ یعنی قیامت وغیرہ کچھ نہیں، نہ ہی کوئی مر کر زندہ ہوسکتا ہے۔ ”اَوَلَمْ يَرَ“ (اور کیا انسان نے نہیں دیکھا) سے مراد ہے ”أَوَلَمْ یَعْلَمْ“ (اور کیا انسان کو معلوم نہیں)۔ کیونکہ کسی بھی شخص نے اپنا نطفے سے پیدا ہونا آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ : ”نُّطْفَةٍ“ ”نَطَفَ یَنْطُفُ“ (ن، ض) ٹپکنا، اس میں تنوین تحقیر کے لیے ہے، معمولی اور حقیر قطرہ، یعنی کیا انسان کو معلوم نہیں کہ ہم نے انسان کو ایک حقیر قطرے سے پیدا کیا ہے ؟ بسر بن جحاش القرشی ؓ بیان کرتے ہیں : (بَزَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِيْ کَفِّہِ ، ثُمَّ وَضَعَ أُصْبَعَہُ السَّبَّابَۃَ وَقَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنّٰی تُعْجِزُنِي ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ مِثْلِ ہٰذِہِ ، فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُکَ ہٰذِہِ ، وَأَشَارَ إِلٰی حَلْقِہِ ، قُلْتَ أَتَصَدَّقُ ، وَأَنّٰی أَوَان الصَّدَقَۃِ ؟) [ ابن ماجہ، الوصایا، باب النھي عن الإمساک۔۔ : 2707، قال البوصیري صحیح وقال الألباني حسن ] ”رسول اللہ ﷺ نے اپنی ہتھیلی پر تھوکا، پھر اپنی شہادت کی انگلی اس پر رکھی اور فرمایا : ”اللہ عز و جل فرماتا ہے، اے ابن آدم ! تو مجھے کیسے عاجز کرسکتا ہے، حالانکہ میں نے تجھے اس جیسی چیز سے پیدا کیا ہے اور جب تیری جان یہاں پہنچ جاتی ہے (اور آپ نے حلق کی طرف اشارہ فرمایا) تو کہتا ہے، میں صدقہ کرتا ہوں، بھلا اب صدقے کا وقت کہاں ؟“
Top