Al-Quran-al-Kareem - Yaseen : 78
وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ
وَضَرَبَ : اور اس نے بیان کی لَنَا : ہمارے لیے مَثَلًا : ایک مثال وَّنَسِيَ : اور بھول گیا خَلْقَهٗ ۭ : اپنی پیدائش قَالَ : کہنے لگا مَنْ يُّحْيِ : کون پیدا کرے گا الْعِظَامَ : ہڈیاں وَهِىَ : اور جبکہ وہ رَمِيْمٌ : گل گئیں
اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی ؟
فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ : ”خَصِيْمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت جھگڑنے والا۔ ”إِذَا“ فجائیہ اچانک کے معنی میں آتا ہے، یعنی ایسی عجیب چیز کا وجود میں آنا جس کا وہم و گمان نہ ہو، یعنی ایسے حقیر قطرے سے پیدا کیے جانے والے انسان کا حق تو یہ تھا کہ ہمیشہ اس کا سر ہمارے احسان کے بوجھ سے جھکا رہتا۔ یہ تو امید ہی نہ تھی کہ وہ صاف جھگڑے پر اتر آئے گا اور اتنا زیادہ جھگڑے گا۔ دیکھیے سورة نحل (4)۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ : یعنی ہمیں مخلوق کی طرح عاجز سمجھتا ہے کہ جس طرح انسان مردہ کو زندہ نہیں کرسکتا ہم بھی نہیں کرسکتے اور یہ بھول جاتا ہے کہ خود اسے ہم نے کس چیز سے پیدا کیا۔ کہتا ہے، آخر جب بدن گل سڑ کر ہڈیاں رہ گیا اور وہ بھی پرانی اور بوسیدہ و کھوکھلی تو انھیں دوبارہ کون زندہ کرے گا ؟ اگر یہ اپنی پیدائش کو یاد رکھتا تو یہ سوال ہرگز نہ کرتا، کیونکہ جو انسان کو ایک حقیر مردہ قطرے سے پیدا کرسکتا ہے، جب اس کا نام و نشان نہیں تھا، اس کے لیے اسے اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفے سے پیدا کرنے کی بات کئی مقامات پر یاد دلائی ہے، سورة دہر میں فرمایا : (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ) [ الدھر : 2 ] ”بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا۔“ اور سورة مرسلات میں فرمایا : (اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ) [ المرسلات : 20 ] ”کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟“
Top