Al-Quran-al-Kareem - Al-Maaida : 109
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ١ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ١٘ ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ
مِنْ : سے اَجْلِ : وجہ ذٰلِكَ : اس كَتَبْنَا : ہم نے لکھدیا عَلٰي : پر بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَنَّهٗ : کہ جو۔ جس مَنْ قَتَلَ : کوئی قتل کرے نَفْسًۢا : کوئی جان بِغَيْرِ نَفْسٍ : کسی جان کے بغیر اَوْ فَسَادٍ : یا فساد کرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں فَكَاَنَّمَا : تو گویا قَتَلَ : اس نے قتل کیا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَمَنْ : اور جو۔ جس اَحْيَاهَا : اس کو زندہ رکھا فَكَاَنَّمَآ : تو گویا اَحْيَا : اس نے زندہ رکھا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : تمام وَ : اور لَقَدْ جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آچکے رُسُلُنَا : ہمارے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلائل کے ساتھ ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنْهُمْ : ان میں سے بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں لَمُسْرِفُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔
يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ۔۔ : دین کے کچھ مسائل اور احکام بیان کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیے، تاکہ نافرمانی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن پیغمبروں کو جمع کرکے ان سے سوال ہوگا کہ جو دعوت تم نے دی تھی تمہاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا۔ پیغمبروں سے یہ سوال درحقیقت امتوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت کے لیے ہوگا۔ (ابن کثیر) جیسا کہ آیت : (وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ)”جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا“ یہ سوال درحقیقت زندہ درگور کرنے والوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہوگا۔ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ۭ۔۔ : وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے اپنے اپنے رسولوں کو جواب کا کچھ علم تو پیغمبروں کو تھا، کیونکہ ان کی عمر انھی میں گزری تھی، تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس سوال کا جواب (اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ) میں موجود ہے، یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں، جو ہماری زندگی میں انھوں نے دیا اور پیغمبر شہادت بھی اسی کے متعلق دیں گے۔ (دیکھیے نساء : 41۔ بقرہ : 143) باقی رہا کہ انھوں نے فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں اس دعوت پر کہاں تک ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سوا کسی کو نہیں، کیونکہ چھپی ہوئی باتوں کو تو ہی خوب جاننے والا ہے، سو آیات میں بحمد اللہ کوئی تعارض نہیں۔ (کبیر) شاہ عبد القادر ؓ فرماتے ہیں کہ یہ ان کو سنایا جو پیغمبروں کی شفاعت پر مغرور ہیں، تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دیتا اور کوئی کسی کی سفارش نہیں کرتا۔ (موضح)
Top