Anwar-ul-Bayan - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں ایام الٰہیہ یاد دلاؤ بیشک اس میں ہر ایسے شخص کیلئے نشانیاں ہیں جو خوب صبر کرنے والا ہے خوب شکر کرنے والا ہے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مبعوث ہونا اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلانا : ان دو آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ اقتدار میں جب اپنے والدین اور بھائیوں کو اور ان کی ازواج واولاد کو بلا لیا تھا تو یہ لوگ مصر میں مستقل طور پر بس گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے چونکہ یہ لوگ مصری قوم یعنی قبطیوں کے نہ ہم وطن تھے نہ ہم مذہب تھے اس لیے انہوں نے ان کو اجنبی ہونے کی پاداش میں بہت بری طرح رگڑا۔ چار سو سال کی بدترین غلامی میں جکڑے رہے پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے جو بنی اسرائیل ہی میں سے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزات عطا فرمائے اور ان پر توریت شریف نازل فرمائی چونکہ وہ پیدا ہونے کے بعد سے تیس سال کی عمر تک مصر ہی میں رہے اس کے بعد دس سال مدین میں رہے اس لیے بنی اسرائیل کی زبان بھی جانتے تھے اور قبطیوں کی زبان سے بھی واقف تھے ‘ آپ فرعون اور قوم فرعون کی طرف بھی مبعوث ہوئے اور بنی اسرائیل کی طرف بھی ‘ فرعون اور اس کی قوم تو کافر مشرک تھے ہی ان کی اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل بھی نہ صرف یہ کہ فسق وفجور میں مبتلا تھی بلکہ شرک کو بھی پسند کرنے لگی تھی اس لیے جب سامری نے بچھڑا بنایا تو اس کی پرستش کرنے لگے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مشرکین پر گزرے تو کہنے لگے (یَا مُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ) (اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے ہی معبود تجویز کر دیجئے جیسے ان لوگوں کے لیے معبود ہیں) اللہ تعالیٰ شانہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکالو اور نور کی طرف لے آؤ کفر و شرک اور فسق وفجور اور معاصی سے انہیں ہٹاؤ اور بچاؤ اور ہدایت کی روشنی کی طرف لے آؤ (وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ ) (اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ) دن تو سارے اللہ ہی کے ہیں کیونکہ سب دنوں کو اسی نے پیدا فرمایا ہے لیکن محاورہ کے اعتبار سے یہاں انقلابات جہاں اور دکھ تکلیف کے واقعات یاد دلانا مقصود ہے دنیا میں کیسے کیسے بادشاہ اور دبدبے والے اصحاب اقتدار آئے انہوں نے کیا کیا بنایا اور کیا کیا خود صفحہ ہستی سے مٹ گئے ان کے لشکر بھی تباہ ہوئے قومیں بھی ختم ہوئیں محلات بھی برباد ہوئے جن میں سے بعض کا کوئی نشان باقی ہے اور بعض کے نشان بھی ختم ہوگئے ‘ انہیں میں فرعون بھی تھا جس کی سطوت اور شوکت بنی اسرائیل دیکھ چکے تھے اور چار سو سال سے دکھ تکلیف کو بھگت رہے تھے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ انہیں یہ واقعات اور قصے یاد دلاؤ دوسروں کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں ان کا جو اپنا حال تھا اس کو بھی یاد کریں۔ بعض حضرات نے ایام اللہ سے نعماء اللہ مراد لیے ہے یعنی تم پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہوئے ہیں ان کو یاد کرو۔ (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ) (بلاشبہ اس میں نشایاں ہیں ہر ایسے بندہ کے لیے جو خوب صبر کرنے والا ہو خوب شکر کرنے والا ہو) ۔ صبر شکر والے بندے بصیرت والے ہوتے ہیں جو شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو وہ گزشتہ انسانوں کی مصیبتیں یاد کرلے تو اس کی مصیبت ہلکی ہوجائے گی اور مصیبت پر صبر کرنا آسان ہوجائے گا اور جو نعمتیں اسے ملی ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوگا۔
Top