Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 44
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم آپ سے ان کا واقعہ بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں، بلاشبہ یہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دیدی
اصحاب کہف کا تفصیلی واقعہ جیسا کہ دو تین صفحہ قبل ہم نے ذکر کیا کہ یہ چند نوجوان اپنی بت پرست قوم سے بھاگ نکلے تھے ان کا مقصود اپنا ایمان بچانا تھا اور جان بچانا بھی پیش نظر تھا کیونکہ وہاں جو بادشاہ تھا وہ اہل ایمان کو بت پرستی پر مجبور کرتا تھا اور جو شخص انکار کردے اسے قتل کردیتا تھا۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ نوجوان روم کے بادشاہ اور سرداروں کی اولاد میں سے تھے اس زمانہ کا بادشاہ جس کا نام دقیانوس تھا ظالم آدمی تھا اور وہ لوگوں کو بت پرستی کی دعوت دیتا تھا جب یہ نوجوان تہوار کے موقع پر اپنے اپنے خاندان کے ساتھ نکلے تو بت پرستی کا ماحول اور ماجرا دیکھ کر ان کے قلوب میں بہت زیادہ ناگواری کی شان پیدا ہوگئی اور وہاں سے بھاگ نکلے ہر شخص علیحدہ علیحدہ فرار ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ سب ایک جگہ اکٹھے ہوگئے پہلے ایک شخص ایک درخت کے سایہ میں آکر بیٹھا اور پھر دوسرا اور تیسرا آیا اور آتے چلے گئے قلوب کی وحدت ایمانیہ نے بہ مصداق الجنس یمیل الی الجنس سب کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اصحاب کہف کا ایک جگہ جمع ہونا اور آپس میں متعارف ہو کر باہم گفتگو کرنا جمع تو ہوگئے لیکن ایک دوسرے سے ڈر بھی رہے تھے کیونکہ ہر ایک کو ایک دوسرے کے عقیدہ کا پتہ نہ تھا ایسے ہی بیٹھے بٹھائے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہر شخص یہ بتائے کہ وہ اپنی قوم سے کیوں جدا ہوا، اور تنہا اکیلا ہوجانا اس نے کیوں گوارا کیا، اس پر ایک شخص بولا کہ میں تو اس لیے قوم سے جدا ہوا ہوں کہ میرے نزدیک میری قوم باطل پر ہے جو غیر اللہ کو سجدہ کر رہی ہے۔ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں کو زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب کچھ پیدا کیا، یکے بعد دیگرے دوسرے افراد نے بھی یہی جواب دیا اس پر وہ آپس میں سچے ایمانی بھائی اور ایک دوسرے کے ہمدرد بن گئے اور انہوں نے مل کر ایک عبادت خانہ تجویز کرلیا جس میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے جب ان کی قوم کو صورت حال کا علم ہوا تو بادشاہ کو بات پہنچا دی بادشاہ نے ان کو بلوایا اور ان سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا حال ہے اور کیا دین ہے اللہ جل شانہ نے ان کے دل مضبوط کردئیے اور انہوں نے بغیر کسی خوف و خطر کے نڈر ہو کر اپنا عقیدہ توحید بیان کردیا، اور بادشاہ کو بھی توحید کی دعوت دی، بادشاہ نے ان کی دعوت توحید قبول کرنے سے انکار کردیا اور انہیں ڈرایا دھمکایا اور ان کا لباس اتروا دیا۔ جو وہ عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے اور انہیں مہلت دیدی کہ تم غور کرلو اور اپنی قوم کے دین میں واپس آجاؤ۔ بادشاہ کو اور پوری قوم کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا یہ مہلت ملنا ان کے لیے مبارک ہوا، اس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور موقع پاکر فرار ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دل بھی مضبوط کردیا تھا انہوں نے بادشاہ کو توحید کی دعوت دی اور توحید کی دلیل بھی بتادی کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے، اس میں یہ بتادیا کہ خالق کائنات جل مجدہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا عقلمندی کے خلاف ہے اور ساتھ ہی (لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا) بھی کہہ دیا یعنی ہم ہرگز کبھی اپنے رب کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ اور مزید یوں کہا : (لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا) (اگر بالفرض ہم اپنے رب کے سوا کسی کو معبود بنائیں تو یہ تو بڑے ظلم اور زیادتی کی بات ہوگی) آپس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جو ہماری قوم کے لوگ ہیں انہوں نے خالق اور مالک جل مجدہ کے علاوہ دوسرے معبود بنالیے ہیں ان کے پاس اس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے اگر ہے تو کوئی واضح دلیل بیان کردیں۔ جب کوئی دلیل نہیں ہے تو ان کا عقیدہ اور عمل اور قول ظلم ہی ظلم ہے چونکہ مشرکین یوں بھی کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عمل سے راضی ہے اس لیے ان نوجوانوں نے یہ بھی کہا (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا) (کہ اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ ) باہمی مشورہ کرکے غار میں داخل ہوجانا اصحاب کہف جب اپنی قوم سے جدا ہوئے اور ان لوگوں کو چھوڑ کر بالکل علیحدہ ہوگئے تو آپس میں کہنے لگے کہ تم نے اپنی قوم کو چھوڑا ان کے باطل معبودوں سے گریز کیا اور یہ معلوم ہے کہ دوبارہ انہیں میں واپس ہونے اور اپنے گھروں کو لوٹنے میں خیر نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ پھر اپنا دین اختیار کرنے پر مجبور کریں گے لہٰذا اب ہمیں کسی غار میں ٹھکانہ پکڑلینا چاہیے، آپس میں مشورہ سے یہ بات طے تو ہوئی لیکن انسانی ضروریات کا سوال بھی پیش نظر تھا کہ غار میں رہیں گے تو کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا کیا بنے گا ؟ اس سوال کو حل کرنے کے لیے آپس میں یوں کہنے لگے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید رکھنی چاہیے انشاء اللہ تعالیٰ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا اور وہ ہم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور جس مقصد خیر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے نکلے ہیں اس کے لیے آسانیاں پیدا فرما دے گا، باہمی مشورہ سے غار میں جانا طے ہوا اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید باندھ لی اور غار میں داخل ہوگئے۔
Top