Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَعْثَرْنَا : ہم نے خبردار کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر لِيَعْلَمُوْٓا :تا کہ وہ جان لیں اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : قیامت لَا رَيْبَ : کوئی شک نہیں فِيْهَا : اس میں اِذْ : جب يَتَنَازَعُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے بَيْنَهُمْ : آپس میں اَمْرَهُمْ : ان کا معاملہ فَقَالُوا : تو انہوں نے کہا ابْنُوْا : بناؤ عَلَيْهِمْ : ان پر بُنْيَانًا : ایک عمارت رَبُّهُمْ : ان کا رب اَعْلَمُ بِهِمْ : خوب جانتا ہے انہیں قَالَ : کہا الَّذِيْنَ غَلَبُوْا : وہ لوگ جو غالب تھے عَلٰٓي : پر اَمْرِهِمْ : اپنے کام لَنَتَّخِذَنَّ : ہم ضرور بنائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّسْجِدًا : ایک مسجد
اور اسی طرح ہم نے ان پر مطلع کردیا تاکہ وہ اس بات کو جان لیں کہ بلاشبہ اللہ کا وعدہ حق ہے، اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں، جب کہ وہ لوگ اپنے درمیان ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے سو انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر عمارت بنا دو ان کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو لوگ ان کے معاملہ میں غالب ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ضرور ضرور ان پر مسجد بنائیں گے
علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ دقیانوس بادشاہ مرگیا تھا (جس کے زمانہ میں یہ حضرات کہف میں داخل ہوئے تھے) سینکڑوں سال گزر گئے بادشاہ آتے جاتے رہے آخر میں ایک نیک شخص اس علاقہ کا بادشاہ ہوا اور وہ اور اس کی رعایا اس بات کو تو مانتے تھے کہ موت کے بعد حشر نشر ہے لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ روحیں محشور ہوں گی۔ کیونکہ جسم کو زمین کھا جاتی ہے، ان لوگوں نے جسم کے ساتھ حشر ہونے کو بعید سمجھا اور کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ جسم اور روح دونوں کو اٹھایا جائے گا بادشاہ کو اس اختلاف سے حیرانی ہوئی اور اصل حقیقت جاننے کے لیے اس نے اتنا اہتمام کیا کہ ٹاٹ کے کپڑے پہن لیے اور راکھ پر بیٹھ گیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتا رہا کہ ہمیں کوئی ایسی دلیل مل جائے جس سے یہ واضح ہوجائے کہ روح اور جسم دونوں کا حشر کوئی مستبعد نہیں، اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ شانہ نے اصحاب کہف کو ظاہر فرما دیا بادشاہ نے ان کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو وہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جو دقیانوس کے زمانہ میں شہر سے چلے گئے تھے میں دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کو دکھا دے جب ان لوگوں کے کئی سو سال سونے کے بعد اٹھ جانے کا واقعہ معلوم ہوا تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ واقعی اللہ کا وعدہ حق ہے قیامت حق ہے۔ (وَکَذٰلِکَ اَعْثَرْنَا عَلَیْھِمْ لِیَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ) میں اس بات کو بتایا ہے کہ جب وہ لوگ اصحاب کہف پر مطلع ہوئے تو انہیں قیامت کا یقین آگیا اصحاب کہف باہر نکل کر واپس غار میں چلے گئے ہوں اور بعد میں انہیں موت آئی ہو۔ یا یملیخا کی خبر سننے کی وجہ سے وہیں غار میں انہیں موت آگئی ہو روایات میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ قرآن مجید کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غار ہی میں اندر وفات پاگئے، یہ جو آپس میں جھگڑا ہوا کہ ان کے بارے میں کیا کیا جائے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ ان کے اوپر عمارت بناؤ اور جو غالب تھے انہوں نے کہا کہ ہم ان کے اوپر مسجد بنا دیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے غار میں ہوتے ہوئے ہی اس طرح کا اختلاف ہوا۔ روح المعانی ص 234 ج 1 میں لکھا ہے کہ جب بادشاہ کو ان لوگوں کا پتہ چلا تو اس نے وہاں جاکر ان لوگوں سے ملاقات کی اور دیکھا کہ ان کے چہرے روشن ہیں اور کپڑے بھی خراب نہیں ہیں انہوں نے بادشاہ کو وہ حالات سنائے جو دقیانوس کے زمانہ میں پیش آئے تھے ابھی باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اصحاب کہف نے کہا نستودعک اللّٰہ تعالیٰ والسلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ تعالیٰ حفظک اللّٰہ تعالیٰ وحفظ ملکک نعیذک باللّٰہ تعالیٰ من شر الانس والجن (ہم تجھے اللہ کے سپرد کرتے ہیں تجھ پر اللہ کا سلام ہو اور اس کی رحمت۔ اللہ تیری حفاظت کرے اور تیرے ملک کی بھی حفاظت کرے اور ہم تجھے انسانوں اور جنات کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتے ہیں) یہ کہا اور وہ واپس اندر اپنی اپنی جگہوں پر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری فرما دی پھر بادشاہ نے انہیں لکڑی کے تابوتوں میں دفن کردیا اور غار کے منہ پر مسجد بنادی، صاحب روح المعانی نے اس کے بعد ایک قول یہ لکھا ہے کہ جب بادشاہ کے پاس اس شخص کو لایا گیا جو غار میں سے کھانا لینے کے لیے آیا تھا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا کہ میں اس شہر کا رہنے والا ہوں اور یہ بتایا کہ میں کل ہی شہر سے نکلا تھا اس نے اپنا گھر بھی بتایا اور کچھ لوگوں کے نام بھی بتائے جنہیں کوئی بھی نہ پہچان سکا، بادشاہ نے سن رکھا تھا کہ کچھ لوگ پرانے زمانہ میں روپوش ہوگئے تھے اور یہ بھی سنا ہوا تھا کہ ان کے نام سرکاری خزانے میں ایک تختی پر لکھے ہوئے رکھے ہیں وہ تختی منگائی اور ان کے نام پڑھے تو وہی نام نکلے جو اصحاب کہف کے نام تھے وہ جو ایک شخص کھانا لینے کے لیے آیا تھا اس کے ساتھ بادشاہ اور چند لوگ چلے جب غار کے دروازہ پر آئے تو وہ نوجوان اندر گیا اور انہیں پوری صورت حال بتادی اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو قبض فرمالیا اور بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ اندر داخل نہ ہوسکے لوگوں میں یہ اختلاف ہوا کہ ان کے بارے میں کیا کیا جائے تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان کے اوپر یعنی غار کے دروازہ پر عمارت بنا دی جائے اور وہ جماعت جو ان کے معاملہ میں غالب ہوگئی یعنی بادشاہ اور اس کے ساتھی انہوں نے کہا کہ ہم مسجد بنائیں گے چناچہ انہوں نے مسجد بنادی یہ مسجد غار کے دروازے پر بنادی گئی تھی چونکہ یہ مسجد دروازہ پر تھی مرنے والوں کی قبروں پر نہیں تھی اور قبروں کی طرف قبلہ بھی نہیں تھا اس لیے یہ اشکال نہیں ہوتا کہ قبروں پر مسجد بنانے کی ممانعت ہے لہٰذا تعمیر مسجد کو کیوں اختیار کیا گیا۔ ایک فریق نے کہا کہ ان پر عمارت بنا دو دوسرے فریق نے کہا کہ ہم مسجد بنا دیں گے ان دونوں کے درمیان جو لفظ (رَبُّھُمْ اَعْلَمُ بِھِمْ ) آیا ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ جملہ معترضہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اصحاب کہف کے ساتھ کیا کیا جائے اس بارے میں دو رائیں آرہی تھیں یہ کون لوگ تھے کن خاندانوں سے تھے یہ کن احوال سے گزرے اور کتنے دن غار میں رہے پھر جب ان چیزوں کا صحیح علم نہ ہوسکا اور ان کے حاصل ہونے کا کوئی راستہ بھی نہ ملا تو کہنے لگے کہ اسے اللہ کے سپرد کرو وہ علام الغیوب ہے سب کو جانتا ہے ان کا حال بھی اسی کو صحیح معلوم ہے۔
Top