Anwar-ul-Bayan - Al-Kahf : 24
اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ١٘ وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّهْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا
اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّشَآءَ : چاہے اللّٰهُ : اللہ وَاذْكُرْ : اور تو یاد کر رَّبَّكَ : اپنا رب اِذَا : جب نَسِيْتَ : تو بھول جائے وَقُلْ : اور کہہ عَسٰٓي : امید ہے اَنْ يَّهْدِيَنِ : کہ مجھے ہدایت دے رَبِّيْ : میرا رب لِاَقْرَبَ : بہت زیادہ قریب کی مِنْ هٰذَا : اس سے رَشَدًا : بھلائی
مگر یہ کہ اس کے ساتھ اللہ کی مشیت کا ذکر بھی کردیں، اور جب آپ بھول جائیں تو آپ اپنے رب کو یاد کریں اور آپ یوں کہہ دیجیے کہ امید ہے میرا رب مجھے وہ بات بتادے گا جو ہدایت کے اعتبار سے اس سے قریب تر ہے
وعدہ کرتے وقت انشاء اللہ نہ کہنے پر عتاب تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ قریش مکہ نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو مدینہ منورہ بھیجا (یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے) کہ یہود کے علماء سے محمد ﷺ کے بارے میں دریافت کرو اور ان سے کہو کہ نبی آخر الزماں کی صفات بتادو، یہودی پہلی کتابوں سے واقف ہیں اور ہمارے پاس انبیاء کرام (علیہ السلام) کے علوم میں سے کچھ نہیں ہے لہٰذا تم جاؤ ان لوگوں سے دریافت کرو، قریش کے نمائندے مدینہ پہنچے اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں دریافت کیا اور ان سے کہا کہ تم تورات والے ہو ہم تم سے اس شخص کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، اس پر یہودیوں نے کہا کہ ان سے تین باتیں دریافت کرلو اگر وہ ان باتوں کو بتادیں تو وہ واقعی نبی مرسل ہیں، ان سے ایک بات تو یہ دریافت کرو کہ زمانہ قدیم میں کچھ نوجوان اپنے گھر بار کو چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ کون لوگ تھے ان کا قصہ عجیب ہے اور ان سے یہ بھی پوچھو کہ وہ کون شخص تھا جس نے مشرق مغرب کے بڑے بڑے سفر کیے اور ان سے روح کے بارے میں دریافت کرو کہ وہ کیا ہے یہ باتیں سن کر قریش کے دونوں نمائندے مکہ معظمہ واپس ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے قریش کی جماعت ہم تمہارے پاس ایک فیصلہ کن بات لے کر آئے ہیں۔ یہودیوں نے تین باتیں بتائی ہیں اس کے بعد وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ تینوں باتیں معلوم کیں جن کی یہودیوں نے پٹی پڑھائی تھی، آپ نے فرمایا میں کل کو بتادوں گا لیکن انشاء اللہ نہیں کہا وہ لوگ چلے گئے اور ادھر یہ ہوا کہ پندرہ دن تک آپ پر کوئی وحی نہیں آئی اور اس وجہ سے اہل مکہ نے یہ بات اڑانی شروع کردی کہ محمد ﷺ نے یہ کہا تھا کہ کل کو بتادوں گا لیکن پندرہ دن گزرے ہیں ابھی تک کچھ بھی نہیں بتایا رسول اللہ ﷺ کو وحی کے رک جانے سے اور اہل مکہ کے باتیں بنانے سے سخت دکھ ہوا پھر جبرائیل (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوئے اور سورة کہف لے کر آئے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب بھی ہے (کہ انشاء اللہ کیوں نہیں کہا) اور اصحاب کہف کی خبر بھی ہے اور مشرق اور مغرب کے سفر کرنے والے کی خبر بھی ہے (یعنی ذوالقرنین کا تذکرہ) اور سورة اسراء کی آیت (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ) میں روح کا ذکر بھی آگیا ہے۔ مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کے سکھانے پر جو قریش مکہ نے آنحضرت ﷺ سے تین باتوں کا سوال کیا ان کا جواب دینے کے لیے ارشاد فرمایا کہ کل کو بتادوں گا لیکن پندرہ دن تک وحی نہیں آئی آپ اس سے بہت زیادہ غمگین ہوئے اور مشرکین کو ہنسنے کا موقع مل گیا پھر جب وحی آئی تو مشرکین کے سوالات کے جوابات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ بھی نازل ہوئی اور وعدہ کرتے وقت انشاء اللہ چھوڑنے پر عتاب ہوا مقربین بارگاہ الٰہی کا بعض ایسی باتوں پر بھی عتاب ہوجاتا ہے جو فرض واجب کے درجہ میں نہیں ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ تو سب سے زیادہ اللہ کے مقرب ہیں سب کچھ اللہ کی مشیت اور ارادہ ہی سے ہوتا ہے اللہ کے بندوں کو چاہیے کہ جب کسی سے وعدہ کریں یا کسی عمل کو کرنے کا اظہار کریں تو انشاء اللہ بھی ساتھ میں کہہ دیں کیونکہ بندوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہماری زندگی کب تک ہے جس دن کا وعدہ یا ارادہ کررہا ہوں اس دن تک زندہ رہوں گا یا نہیں اور زندہ بھی رہا تو ارادہ اور وعدہ کے مطابق عمل ہوسکے گا یا نہیں لہٰذا اسی میں بہتری اور خوبی ہے کہ جب کسی کام کا وعدہ یا ارادہ کرے تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرے اور زبان سے بھی انشاء اللہ کہنا چاہیے، جو بھی کوئی وعدہ کرے سچا اور پکا وعدہ کرے اور لفظ انشاء اللہ اس لیے نہ لگائے کہ میں قصداً خلاف ورزی کروں گا اور کہہ دوں گا کہ میں نے تو انشاء اللہ کہہ دیا تھا ایسی غلط نیت کرنے سے وعدہ کی خلاف ورزی کا گناہ ہوگا۔ وعدہ کے ساتھ انشاء اللہ کہنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا (وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ ) (اور آپ اپنے رب کو یاد کرلیجیے جب آپ بھول جائیں) اس کا مطلب بعض اکابر علماء سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب وعدہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا بھول جائے تو جب بھی یاد آجائے انشاء اللہ کہہ لے یہ ایسا ہی ہوگا جیسا وعدہ کے ساتھ متصلاً کہہ دیا۔ صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس ؓ اور بعض تابعین سے یہ مطلب نقل کیا ہے آیت کے ظاہری سیاق سے اس مفہوم کی کچھ تائید بھی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ آیت اس معنی میں صریح نہیں ہے جو حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لیے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعد میں انشاء اللہ کہہ لینا تبرک اور تلافی مافات کے طور پر ہوگا اگر انشاء اللہ تعلیق بالشرط اور عتاق اور یمین کے ساتھ متصلاً نہ کہا تو بعد میں منفصلاً کہہ دینے سے سابقہ اثر اور نتیجہ کا ابطال نہ ہوگا کیونکہ آیت میں صرف اتنی بات ہے کہ جب یاد آجائے اپنے رب کا ذکر کر لیجیے آیت کریمہ سابقہ اثر کے ابطال سے ساکت ہے دوسرے دلائل سے امام صاحب کے مسلک کی تائید ہوتی ہے اور دیگر ائمہ بھی ان کے موافق ہیں۔ قال صاحب الروح و عامۃ الفقھاء علی اشتراط اتصال الاستثناء فی عدم الحنث ولو صح جواز الفصل وعدم تاثیرہ فی الاحکام لاسیما الی الغایۃ المرویۃ عن ابن عباس ؓ لما تقرر اقرار ولا طلاق ولا عتاق ولم یعلم صدق ولا کذب (صفحہ 205 ج 15) وفی روح المعانی ایضا یحکی انہ بلغ المنصور ان ابا حنیفۃ (رح) خالف ابن عباس ؓ فی ھذہ المسئلۃ فاستحضرہ لینکر علیہ فقال لہ ابو حنیفۃ ھذا یرجع الیک انک تاخذ البیعۃ بالایمان افترضی ان یخرجوا من عند فیستثنونہ علیک فیخرجوا عنک فاستحسن کلامہجو حضرات استثناء میں اشتراط اتصال کے قائل ہیں ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بھول جاؤ پھر جیسے ہی یاد آجائے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے لگو اور یہ ایسا ہی ہے جیسا لیلۃ التعریس میں جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ سوتے رہ گئے اور پھر جب سورج طلوع ہونے پر بیدار ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی نماز کو بھول جائے اور سوتا رہ جائے تو جب یاد آجائے اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (وَاَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) (رواہ مسلم) (وَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّھْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا) (اور آپ یوں کہہ دیجیے کہ امید ہے میرا رب مجھے وہ بات بتادے گا جو ہدایت کے اعتبار سے اس سے قریب تر ہے۔ ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ای لشئ اقرب واظھر من نباء اصحاب الکھف من الآیات والدلائل الدالۃ علی نبوتی یعنی مجھے رب سے امید ہے کہ مجھے اصحاب کہف کے واقعہ سے بڑھ کر ایسی واضح ترین چیزیں بتائے گا جو میری نبوت پر دلالت کرنے والی ہوں گی چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ انعام ہوا کہ اصحاب کہف سے بھی زیادہ قدیم واقعات کا علم آنحضرت ﷺ کو دیا گیا اور آپ نے ان چیزوں کی مخاطبین کو خبریں دیں۔ جن کا وحی کے بغیر علم نہیں ہوسکتا تھا اور جو اخبار بالغیب کے اعتبار سے اصحاب کہف کے قصہ سے بھی زیادہ واضح تھیں۔
Top